تحریر:اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
بزرگوں نے کہا تھا:
“تریا ہٹ، بال ہٹ اور راج ہٹ” یعنی عورت کی ضد، بچے کی ضد اور حکمران کی ضد۔ یہ تین ایسی ضدیں ہیں جن کے آگے دلیل، منطق اور حقیقت سب گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ لیکن ہمارے موجودہ دور کے حکمرانوں نے اس پرانے فارمولے میں ایک نیا اضافہ کر دیا ہے:
“ویڈیو ہٹ”۔
راج ہٹ:
حکمران ضد کر بیٹھے کہ عوام کو دکھانا ہے کہ ہم رات دن سیلاب میں ڈوبے انسانوں کو بچا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ آفس سے حکم صادر ہوا:
"ایسی ویڈیوز بنا کر بھیجو کہ ایک مچھر بھی نہ بچا ہو، جسے ہم نے اپنی بہادری سے ریسکیو نہ کیا ہو۔”
ریسکیو اہلکار حکم بجا لانے میں ایسے مصروف ہوئے کہ ایک ہی بزرگ کو تین دن تک کشتی میں گھمایا۔ کبھی اسے پانی میں پھینکا اور پھر ڈرامائی انداز میں نکالا۔ کبھی دائیں کنارے سے ریسکیو، کبھی بائیں سے۔ عوام کے سامنے ہیرو ازم کی یہ ایسی قسطیں چلائی گئیں جیسے کوئی ریئلٹی شو ہو۔
تریا ہٹ:
کہا جاتا ہے عورت کی ضد کے آگے بڑے بڑے پہلوان ہار جاتے ہیں۔ سیاست میں بھی جب کسی وزیرنی یا بی بی وڈیری نے ضد پکڑ لی کہ “سیلابی دورے میں تصویری شوٹ ہوگا اور کھانے میں بریانی ملے گی” تو پورا پروٹوکول فوراً بدل دیا جاتا ہے۔ متاثرین چاہے بھوک سے بلکتے رہیں، مگر تصویر اور فوٹو شوٹ کا سین لازمی مکمل ہوناچاہیے۔
بال ہٹ:
بچہ جب کھلونا مانگ کر ضد پر اڑ جائے تو والدین کے لیے مشکل کھڑی ہو جاتی ہے۔ مگر ہمارے حکمران جب بچوں جیسی ضد پکڑتے ہیں کہ “ہم نے ہیرو لگنا ہے، چاہے جیسے بھی ہو”، تو پوری ریاست ہی والدین کی طرح مجبور ہو جاتی ہے۔
سیلاب میں پھنسے عوام کو چھوڑ کر وہی بابا جی بار بار ریسکیو ہوتے ہیں اور عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ “حکومت جاگ رہی ہے”۔
ویڈیو ہٹ:
تریا ہٹ، بال ہٹ اور راج ہٹ کے بعد اب آیا ہے
ویڈیو ہٹ۔
کیمرہ مین کے بغیر کوئی ریسکیو ممکن ہی نہیں۔ پہلے پوزیشن سیٹ ہوتی ہے، پھر پانی میں چھلانگ لگتی ہے، پھر بچاؤ کی چیخیں، اور آخر میں ہیرو اینٹری۔
ریسکیو ڈرامے کا اسکرپٹ اتنا مضبوط ہے کہ فلم فیسٹیول میں پیش کیا جائے تو انعام لازمی ملے۔
کہاوت اب نئی شکل اختیار کر چکی ہے:
“تریا ہٹ، بال ہٹ، راج ہٹ اور ویڈیو ہٹ”
ان چاروں کے آگے اب قوم بے بس ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ عوام ڈوب رہی ہے یا بھوک سے مر رہی ہے، اصل کام تو یہ ہے کہ فوٹو اچھا آئے، ویڈیو ہٹ ہو، اور حکمران کی ضد پوری ہو۔


