تحریر:اسد مرزا
جہاں لفظ بے نقاب ہوں، وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
راجن پور کا یہ دلخراش واقعہ محض ایک فرد کے خلاف جرم نہیں بلکہ پورے پولیس نظام کے منہ پر ایک کھلا طمانچہ ہے۔ مسجد کے گیٹ پر، جہاں امن اور سکون کی سب سے زیادہ توقع کی جاتی ہے، نوجوان رشید احمد کو سرعام اغوا کر لیا گیا۔ڈی آئی جی میرپور سندھ زبیر دریشک، ڈی ایس پی ابراہیم دریشک اور درجنوں افراد کی موجودگی میں، مسلح افراد رشید کو گھسیٹتے ہوئے ڈالے میں ڈالتے ہیں اور ہتھیار لہراتے ہوئے روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہ کوئی فلمی منظر نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت تھی۔تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اغوا کار اور کوئی نہیں بلکہ پولیس افسران کا اپنا بھتیجا غلام مصطفی تھا جو چند لمحے پہلے مسجد میں اپنے چچاؤں کے ساتھ موجود تھا۔ منصوبہ بندی کے تحت اس نے باہر نکل کر ساتھیوں کے ساتھ یہ کارروائی کی، اور پولیس افسران؟۔۔۔ وہ حسب روایت اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے گھروں کو تشریف لے گئے۔رشید احمد مسجد میں رسم قل کی دعا اور سوگ میں شریک تھا، مگر بندوقوں کے سائے میں اسے اچانک بے بسی سے گھسیٹ لیا گیا۔
کیا پولیس افسران کی موجودگی میں ان کے رشتہ داروں کی یہ بدمعاشی کسی قانون میں جائز ہے؟سردار فیاض خان دریشک کے مطابق، معاملہ ایک مچھلی کے ٹھیکے پر اختلاف کا تھا۔ لیکن اگر اعتراض تھا تو قانونی راستہ موجود تھا۔ یہاں تو جنگل کا قانون رائج ہوا، اور پولیس افسران نے جانبداری کی انتہا کرتے ہوئے ملزمان کو روکنے کے بجائے پہلو تہی اختیار کی۔یہ واقعہ محض رشید احمد کے اغوا کا نہیں، بلکہ پورے نظام کے اغوا کا ہے۔ انصاف کا جنازہ مسجد کے گیٹ سے اٹھا ہے۔ عوام بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ جنہیں محافظ سمجھا جاتا ہے وہی مجرموں کے پشت پناہ بن گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عوام آخر کس کے پاس جائیں؟ قانون کے پاس یا قانون کے رکھوالوں کے گھر؟ اگر پولیس افسران اپنے رشتہ داروں کی بدمعاشی روکنے کی جرات نہیں رکھتے تو پھر نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کس منہ سے کیا جاتا ہے؟ ہاں، پولیس نیوٹرل ضرور ہے لیکن صرف عوام کے خلاف اندھا دھن طاقت کے استعمال میں۔آخر میں بس ایک سوال چھوڑ رہا ہوں: اگر مسجد کے گیٹ پر رشید احمدنہیں تو پھر اس ملک میں کوئی عام آدمی کہاں مخفوظ ہے؟


