تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پنجاب پولیس کے قصے ہمیشہ دلچسپ ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی افسر دردِ دل کی مثال بن جاتا ہے اور کبھی کوئی سزا مشین۔ آئیے دونوں کہانیوں پر ذرا غور کرتے ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں کیپٹن (ر) مستنصر فیروز کی۔ یہ وہ افسر ہیں جنہیں قدرت نے نرم دل دیا ہے۔ مگر ایک دن انہیں بھی سخت ہونا پڑا۔ ہوا یوں کہ سیالکوٹ کے رنگ پورہ تھانے کی حدود میں ایک غریب شہری نے خودکشی کر لی۔ جیب سے ایک خط نکلا جس میں لکھا تھا کہ اصل رقم تو دے دی مگر سود کی رقم نے زندگی لے لی۔ یہ خط جب ڈی پی او مستنصر فیروز کے ہاتھ لگا تو انہوں نے فوری طور پر تمام ایس ایچ اوز کی میٹنگ طلب کر لی۔
میٹنگ میں ہوا کچھ یوں: خط کی کاپیاں بانٹی گئیں اور ایس ایچ او رنگ پورہ کو کہا گیا کہ ذرا اونچی آواز میں سب کو پڑھ کر سناؤ۔ پھر مستنصر فیروز نے ایک جملہ کہا جو آج بھی پولیس فورس کے کئی افسران کو یاد ہوگا:
“ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے اگر ہماری وجہ سے کوئی سود کی قسط نہ دے سکا اور خودکشی کر بیٹھا؟”
اسی لمحے حکم ہوا کہ جب تک وہ سیالکوٹ کے ڈی پی او ہیں، پولیس قسطوں اور لین دین کے معاملات میں مقدمات درج نہیں کرے گی۔ مزید یہ کہ تمام ایس ایچ اوز اس خط کو اپنی شرٹ کی دائیں جیب میں رکھیں گے اور گاہے بگاہے چیک ہوگا۔ یہ وہ سزا تھی جو سبق بھی تھی، اور نصیحت بھی۔ میٹنگ ختم ہوئی، تو اردل روم میں شوکاز پر آئے ماتحتوں کو میجر سزائیں سنائی گئیں۔ مگر ان سزاؤں کے پیچھے سخت دلی نہیں، بلکہ درد دل تھا۔
اب دوسری تصویر دیکھتے ہیں۔ ایک اور صاحب تھے جو جہاں گئے، سزا ہی ان کا مشغلہ تھی۔ بطور ڈی پی او رحیم یار خان انہوں نے ملازمین کو معمولی غلطی پر بھی ’’میجر سزا‘‘ دینے کا رواج ڈال دیا۔ اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں سزا اتنی عام تھی کہ لگتا تھا جیسے چائے میں چینی کم ڈالنے پر بھی نوکری کے ڈھائی سو سال ضبط ہو جائیں گے۔ نتیجہ؟ ضلع بھر کے افسران خوف اور مایوسی کے ساتھ ڈیوٹی کرنے پر مجبور تھے۔
اور پھر ایک اور کردار ہیں سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ۔ سخت گیر ہیں ضرور، مگر سزا دینے سے زیادہ کام لینے کے ماہر ہیں۔ ان کے ماتحت جانتے ہیں کہ صاحب سزا نہیں بلکہ نتائج مانگتے ہیں، اس لیے ڈنڈے کی بجائے ڈسپلن کا ڈر کافی ہوتا ہے۔
اصل سبق یہ ہے کہ پولیس فورس میں سزا اگر نصیحت کے ساتھ ہو تو دل جیت لیتی ہے، لیکن اگر عادت بن جائے تو صرف دل توڑ دیتی ہے۔ ایک افسر کا درد دل ماتحتوں کو راہ دکھاتا ہے اور دوسرے کا شوق صرف حوصلہ شکن بن جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی سزا سے اصلاح چاہتا ہے اور کوئی سزا کو بطور مشغلہ استعمال کرتا ہے۔


