اسلام آباد: سرکاری موقف سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی پالیسی کے حوالے سے سعودی عرب سمیت کسی بیرونی خطے یا ملک تک جوہری چھتری کی توسیع کی تصدیق نہیں کی گئی۔
یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے ایک حالیہ بیان نے ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ ایک ٹی وی پر انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ریاض اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کے تحت ضرورت پڑنے پر پاکستان کا جوہری پروگرام سعودی عرب کے لیے ’دستیاب ہو گا۔ ان کے اس تبصرے کے بعد مختلف حلقوں میں سوالات اٹھنے لگے اور سرکاری وضاحت پیش کرنا پڑی۔
ایک حکومتی اکاؤنٹ کی جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ دفاع کے انفرادی تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ مزید کہا گیا کہ یہ صرف "سیاسی اشارے” تھے، جنہیں کسی طور جوہری تحفظ کی ڈی فیکٹو ضمانت نہیں سمجھا جا سکتا۔ ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کا سرکاری جوہری پروگرام مشرقِ وسطیٰ کے خطے یا اس کے کسی بھی ملک کے لیے توسیعی ڈٹرنس چھتری نہیں ہے بلکہ یہ صرف پاکستان کی سرزمین کو لاحق خطرات کے خلاف مکمل اور قابلِ اعتبار دفاعی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی حکام نے واضح کیا کہ ملک کا جوہری پروگرام مکمل طور پر خودمختار، بھارت پر مرکوز اور سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ ایک محفوظ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہے۔ اس حوالے سے غیر ضروری قیاس آرائیوں اور سیاسی بیان بازی سے گریز کیا جانا چاہیے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف کے بیانات اکثر حکومت کو مشکل وضاحتوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہ اس "سیریز” کا تازہ ترین واقعہ ہے، جس میں ان کے ایک جملے پر حکومتی مشینری کو وضاحتی بیانات دینا پڑتے ہیں۔ ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا یہ بیان دانستہ طور پر دیا گیا یا یہ محض ایک لغزشِ زبان تھی۔


