تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
کبھی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس کو طنزاً “کمزور اور نازک پولیس” یا “باجی پولیس” کہا جاتا تھا۔ شام ڈھلے دفاتر بند، تھانے ویران، گلیوں میں مجرم آزاد، اور عوام کا پولیس پر اعتماد متزلزل۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وردی صرف طاقت کی علامت سمجھی جاتی تھی، خدمت کی نہیں۔ مگر پھر ایک نام اُبھرا علی ناصر رضوی۔ایک ایسا افسر جس نے نہ صرف پولیس کا نظام بدلا بلکہ اس وردی کی حرمت کو دوبارہ زندہ کر دیا۔
بطور آئی جی اسلام آباد ان کی تعیناتی فورس کے لیے ایک انقلاب سے کم ثابت نہیں ہوئی۔ جو افسران شام سے پہلے گھروں کو لوٹنے کے عادی تھے، وہ اب راتوں کو گشت کرتے، عوامی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
یہی نہیں، اسلام آباد میں کرائم ریٹ گزشتہ پانچ برس کی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، اور یہ سب قیادت کی سمت، نظم و ضبط اور وژن کا نتیجہ ہے۔
بین الاقوامی سروے نمبیو رپورٹ کے مطابق اسلام آباد دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسلام آباد کا کرائم انڈیکس 31.37 فیصد اور سیفٹی انڈیکس 68.63 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یہ وہ سطح ہے جہاں شہریوں کو دن کے وقت اکیلے چلنے میں 81 فیصد اطمینان حاصل ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران جرائم میں 29 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ۔جو کسی معجزے سے کم نہیں۔
اسلام آباد پولیس نے عوامی خدمت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو بنیاد بنایا۔
اسی سوچ کے تحت موبائل پولیس اسٹیشن متعارف کرائے گئے ۔ایسے اسٹیشن جو شہریوں کو گھر کی دہلیز پر ایف آئی آر کے اندراج سمیت دیگر تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
یہی ماڈل بعد ازاں پنجاب پولیس نے بھی اپنایا، اور علی ناصر رضوی کی خدمات حاصل کر کے وہاں بھی موبائل پولیس اسٹیشنز کا نظام شروع کیا گیا۔ یہ پہلی بار نہیں کہ رضوی صاحب نے ناممکن کو ممکن بنایا ہو۔ جب وہ اے ایس پی ماڈل ٹاؤن لاہور تعینات تھے، تو علاقے میں ڈکیتیوں کی بھرمار تھی۔ ہر واردات ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے کی ہوتی، وسائل محدود، نفری ناکافی۔
مگر انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ انہوں نے ایک جرات مندانہ اور منفرد قدم اٹھایا۔
ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کے عملے، خصوصاً طاہر شاہ جیسے سرکردہ افراد سے مشاورت کے بعد
بجلی کے بلوں میں صرف تین ہزار روپے اضافی رقم شامل کر کے خطیر فنڈ اکھٹا کیا۔ اسی رقم سے بلاکس کے داخلی و خارجی راستوں پر گیٹس، بیرئیرز، سیکورٹی گارڈز اور موٹر سائیکل اسکواڈ قائم کیے گئے۔ جب ایک تقریب میں 800 کے قریب شہریوں نے ان سے پوچھا کہ یہ وسائل کہاں سے آئے، تو علی ناصر رضوی نے مسکرا کر کہا، آپ کے ہی جیبوں سے کیونکہ آپ اپنے بجلی کے بل پڑھتے تو ہیں نہیں۔ یہ جملہ پورے ہال میں گونج اٹھا، اور پھر تالیوں کا شور اس بات کی گواہی دیتا رہا کہ عوام نے پہلی بار ایک سچے افسر کو کام کرتے دیکھا ہے۔ یہی ذہانت، دیانت اور عوام دوستی علی ناصر رضوی کی پہچان ہے۔
انہوں نے ہمیشہ “پولیسنگ” کو محض قانون نافذ کرنے کا عمل نہیں بلکہ عوامی خدمت کا فریضہ سمجھا۔
حال ہی میں اسلام آباد پولیس کے افسران نے اہلکاروں کو ایک جامع بریفنگ دی جس میں
پیشہ ورانہ کارکردگی، سماجی رویوں، ٹیم ورک، اخلاقی ذمہ داریوں اور مؤثر مواصلاتی صلاحیتوں کی اہمیت اجاگر کی گئی۔
یہ بریفنگ دراصل اسی وژن کی عکاس تھی جس کا آغاز آئی جی علی ناصر رضوی نے کیا، کہ پولیس کا اصل ہتھیار کردار، اخلاق اور خدمت کا جذبہ ہے۔ آج اسلام آباد کے شہری دیکھ رہے ہیں کہ پولیس وردی میں نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ دل میں خدمت، آنکھوں میں احساس، اور رویوں میں نرمی لیے گشت کرتی ہے۔ پولیس اب خوف نہیں بلکہ اعتماد کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ آئی جی علی ناصر رضوی نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت خالص ہو، وژن واضح ہو، تو ادارے بدلنے میں صدی نہیں لگتی — صرف ایک سچا لیڈر درکار ہوتا ہے۔
اسلام آباد پولیس اب وہی فورس ہے جسے کبھی “کمزور اور نازک پولیس” کہا جاتا تھا،
مگر آج وہی فورس عوام کے دلوں میں “مردانِ کار” کے نام سے جانی جا رہی ہے۔


