تحریر: سہیل احمد رانا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
کہتے ہیں کہ نکاح نامہ ایک ایسا تاریخی دستاویز ہے جس پر دستخط کرتے وقت دونوں فریق مسکراتے ہیں، اور کچھ سال بعد وکیلوں کے دفتر میں بیٹھ کر یہی کاغذ دانت پیستے ہوئے دوبارہ پڑھتے ہیں۔ اس میں اب تک 25 کالم ہیں، جن میں سے اکثر کو نہ دلہا پڑھتا ہے نہ دلہن سمجھتی ہے۔ مگر اگر قسمت سے ایک 26واں کالم شامل کردیا جائے تو عدالتوں کے بار روم میں چائے کی کھپت آدھی رہ جائے گی۔
جی ہاں! بات صرف اتنی سی ہے کہ اس نئے کالم میں لکھ دیا جائے:
آیا کہ شادی کے موقع پر دلہن کی طرف سے جہیز دیا گیا؟ اگر ہاں، تو کتنی مالیت کا؟ بس صاحب، ملک میں انصاف کی رفتار گدھے سے گھوڑے میں بدل جائے گی۔ کیونکہ آج کل فیملی کورٹس کے آدھے مقدمے جہیز کی واپسی پر چل رہے ہیں۔ بیوی کہتی ہے، “میں نے سونے کی انگوٹھی دی تھی،.شوہر کہتا ہے، “نہیں جی، پیتل کی تھی!” وکیل کہتا ہے، فی الحال فیس دے دیں، انگوٹھی بعد میں دیکھ لیں گے۔اگر یہ چھبیسواں کالم آ گیا تو پھر نہ جھوٹی رسیدیں بنیں گی، نہ فرضی سامان کی لسٹیں۔ جس نے جہیز لیا ہے، وہی اس کی مالیت واپس کرے، جس نے نہیں لیا، وہ بے فکری سے عدالت کے چکر کاٹنے کے بجائے چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر ساس پر طنز کے تیر برسا سکے گا۔
اس تجویز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عدالتیں “جہیز نامہ بمقابلہ نکاح نامہ” کے مخمصے سے آزاد ہوجائیں گی۔ وکیلوں کو فرصت ملے گی کہ وہ بھی کبھی خاندانی زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ اور سچ پوچھیں تو بیچارے جج صاحبان کو بھی روز روز یہ نہیں سننا پڑے گا کہ “جناب، واشنگ مشین پر بھی میرا حق ہے کیونکہ میں نے اس کی نلکی خریدی تھی۔دراصل ہمارا معاشرہ ایک عجیب فلسفے پر قائم ہے۔ جب شادی ہوتی ہے تو سب کہتے ہیں “جہیز نہیں چاہیے”، اور جب طلاق ہوتی ہے تو یہی سب لوگ جہیز کی رسیدیں لے کر عدالت پہنچ جاتے ہیں۔ جیسے نکاح نہیں، کوئی تجارتی معاہدہ ہو جس میں “ریٹرن پالیسی” درج ہو۔
لہٰذا، چھبیسواں کالم صرف ایک قانونی ترمیم نہیں، یہ ایک سماجی علاج ہے۔ یہ انصاف کو فائلوں سے نکال کر فہم و شعور کی میز پر بٹھا دے گا۔آخر میں صرف ایک گزارش. جب یہ ترمیم ہو تو ساتھ ہی ایک کالم اور شامل کرلیا جائے:
"کیا دونوں فریقوں نے نکاح نامہ مکمل پڑھا تھا؟”
کیونکہ اگر یہ سوال بھی پوچھ لیا گیا تو آدھی شادیاں نکاح سے پہلے ہی ٹھنڈی پڑ جائیں گی، اور شاید یہی معاشرتی اصلاح کی پہلی قسط ہوگی۔


