تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پولیس کا محکمہ عموماً سختی، خوف اور اختیار کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر آئی جی خیبر پختونخواہ مرحوم ناصر خان درانی نے اس تاثر کو بدل دیا ۔ انہوں نے ثابت کیا کہ پولیس میں اصل طاقت ڈنڈے کی نہیں، دیانت، خدمت اور انسان دوستی کی ہوتی ہے۔ ناصر درانی صاحب وہ افسر تھے جن کا رعب اُن کی آواز میں نہیں بلکہ اُن کے کردار میں تھا۔ ایک واقعہ اُن کی شخصیت کا نچوڑ بیان کرتا ہے جب وہ ایس پی اٹک تھے تو عیدالاضحیٰ سے قبل ان کے گھر سے قربانی کا جانور چوری ہو گیا۔ ملازمین نے اطلاع دی تو بولے، مقدمہ درج کرو، نہ کسی کو اطلاع دینا۔ اگر میرے جانور کی چوری پر ایف آئی آر ہوئی تو عوام کا پولیس پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔ نیا جانور لے آؤ۔ یہ جملہ اُن کی سوچ کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ عوام پولیس کو محافظ دیکھے، مظلوم نہیں۔ بطور آئی جی کے پی کے ان کے دور میں پولیس کلچر میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ انہوں نے 21 سٹینڈنگ آرڈرز جاری کیے، جن میں سب سے اہم دہشت گردی کے دوران بلٹ پروف جیکٹ کا لازمی استعمال تھا۔ حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ داری سپروائزری افسر پر عائد ہوتی۔
یہ حکم وقتی نہیں بلکہ عملی اصلاح ثابت ہوا۔
اسی اصول پسندی کے باعث پہلی بار خیبر پختونخواہ میں ناکہ جات، تھانوں اور گشت کے دوران اہلکار بلٹ پروف جیکٹس پہنے نظر آنے لگے۔ ناصر درانی نے کرایہ داری ریکارڈ سسٹم کا آغاز بھی کیا، جس سے دہشت گردوں کی چھپنے کی راہیں محدود ہوئیں۔ آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد اسی نظام سے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا سراغ ملا۔ یہی سسٹم بعد ازاں پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی نافذ کیا گیا۔ درانی صاحب کے نظریات کو آگے بڑھانے والے چند روشن ستارے آج بھی پولیس کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
درانی صاحب کی ٹیم کے روشن ستارے موجودہ آئی جی بلوچستان محمد طاہر، اس وقت آر پی او مردان تھے۔ انہوں نے ناصر درانی کی رہنمائی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کو ازسرِنو منظم کیا۔ ان کی حکمت عملی نے خیبر پختونخواہ میں دہشت گردانہ حملوں کی شرح میں واضح کمی لائی جس پر انہیں سی سی پی او پشاور تعینات کر دیا گیا ۔ درانی صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ طاہر جیسے افسر وہ ستون ہیں جن پر پولیس کھڑی ہے۔ ڈی پی او سرگودھا صہیب اشرف، ناصر درانی کے پرسنل افسر کے طور پر تعینات تھے۔ اصلاحات اور ریفارمز کے نفاذ میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ پولیس ریفارمز، شہری سہولتوں اور تھانوں میں شہری رویے کی بہتری کے منصوبوں کے عملی نفاذ کے نگران رہے۔ ان کی بہترین کارکردگی کے باعث درانی صاحب نے انہیں ڈی پی او صوابی اور بعدازاں کوہاٹ تعینات کیا، جہاں انہوں نے اپنے افسر کی سوچ کو عملی شکل دی۔ آج بطور ڈی پی او سرگودھا ان کے اقدامات درانی اسکول آف پولیسنگ کی جھلک دکھاتے ہیں۔ موجودہ ڈی پی او سیالکوٹ فیصل شہزاد اس وقت شانگلہ اور مردان میں بطور ڈی پی او خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی دیانت، عوام دوستی اور پروفیشنل ازم نے ناصر درانی کو بے حد متاثر کیا۔ درانی صاحب نے کہا تھا، فیصل شہزاد میں مجھے اپنی جھلک نظر آتی ہے۔ فیصل شہزاد نے اپنے رویے سے یہ ثابت کیا کہ درانی صاحب کے اصول زندہ ہیں عزت دو، عزت پاؤ۔ آج بھی بطور ڈی پی او سیالکوٹ ان کا رویہ، انصاف پسندی اور فرض شناسی پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کی مثال بنی ہوئی ہے ۔ ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران اس وقت پشاور میں ایس پی کینٹ تھے۔ انہوں نے وہاں مصالحتی کمیٹیوں کی بنیاد رکھی، جس سے تھانوں میں جھگڑوں اور تنازعات کا تصفیہ امن سے ہونے لگا۔ عوام پولیس اسٹیشن میں خود کو محفوظ محسوس کرنے لگے۔ ان کے اس کامیاب ماڈل کو دیکھ کر ناصر درانی نے اسے صوبہ بھر کے تھانوں میں نافذ کرنے کا حکم دیا۔ بعدازاں فیصل کامران کی قابلیت کے اعتراف میں انہیں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ بطور سی ایس او تعینات کیا گیا۔ ایس ایس پی احسن سیف اللہ ان افسران میں شامل تھے جنہوں نے ناصر درانی کے انصاف، شفافیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے فلسفے کو اپنا رہنما بنایا۔ وہ اپنے مؤثر انتظامی فیصلوں اور اہلکاروں کے ساتھ شفاف تعلقات کے باعث محکمہ میں احترام کی علامت ہیں۔
ناصر خان درانی کے انتقال کے بعد بھی ان کی سوچ زندہ ہے۔ ان کی ٹیم کے یہ افسران آج مختلف صوبوں اور عہدوں پر وہی روشنی پھیلا رہے ہیں جو درانی صاحب نے جلائی تھی۔ ناصر درانی چلے گئے،
مگر اُن کے کردار کے چراغ آج بھی محمد طاہر ، فیصل شہزاد، محمد طاہر، صہیب اشرف، فیصل کامران اور احسن سیف اللہ کی شکل میں جل رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو وردی کو رعب سے نہیں، کردار سے وقار دیتے ہیں۔



