تحریر: سہیل احمد رانا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
کہتے ہیں قومیں استاد کی عزت سے بنتی ہیں۔ جب استاد بے توقیر ہو جائے تو علم کی روشنی بجھ جاتی ہے، اور جب علم بجھ جائے تو قوم اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے۔
گزشتہ روز ایک خبر نے دل چیر دیا— 19ویں گریڈ کا پروفیسر، جو اپنی زندگی کتابوں، تحقیق اور طلبہ کی تربیت میں گزارتا رہا، 70cc موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ ایک بے قابو ڈمپر نے اسے کچل دیا۔ وہ پروفیسر نہیں مرا، علم مر گیا۔ وہ خواب مر گیا جو ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جس ملک میں کتابیں فٹ پاتھ پر رکھی جا رہی ہوں اور جوتے علیشان شو کیس میں سجے ہوں، وہاں استاد کا سڑک پر مر جانا کوئی انہونی نہیں۔ یہ وہی معاشرہ ہے جہاں 19 گریڈ کا پروفیسر چھ لاکھ کی پرانی مہران نہیں خرید سکتا، لیکن ایک ایس ایچ او ڈی ایچ اے یا بحریہ ٹاؤن میں دس کروڑ کا بنگلہ بنا لیتا ہے۔
17 گریڈ کا اسسٹنٹ کمشنر دو کروڑ کی لینڈ کروزر میں چھ پولیس کمانڈوز کے ساتھ پیاز اور ٹماٹر کی ریڑھیاں الٹتا ہے، اور وہ استاد جو اسی افسر کو کبھی الف ب لکھنا سکھاتا تھا، کرایہ کے مکان میں زندگی بتاتا ہے۔ یہ کیسا الٹا زمانہ ہے۔ بارہ گریڈ کا پٹواری پچاس ہزار کی تنخواہ میں تیس تیس کروڑ کا مالک ہے، جبکہ یونیورسٹی کا پروفیسر بیٹی کی شادی کے لیے قرض مانگتا ہے۔ ہائی اسکول کا ہیڈ ماسٹر بچوں کی فیس دینے کے لیے مہینوں پیسے بچاتا ہے، مگر پولیس کا ایک عام اہلکار اپنی بیٹی کی شادی میں پچاس لاکھ روپے اڑا دیتا ہے۔ یہ کہانی کسی ایک پروفیسر کی نہیں — یہ اس نظام کی کہانی ہے جہاں ایمانداری جرم بن چکی ہے، دیانت کمزوری اور علم بیکار شے سمجھا جاتا ہے۔ پروفیسر کا سڑک پر مرنا دراصل ہمارے سماج کے ضمیر کا جنازہ ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں استاد زندہ ہوتے ہوئے بھی مر جاتا ہے، اور مرنے کے بعد بھی کسی صفحے پر جگہ نہیں پاتا۔
اگر ہم نے آج بھی یہ نہ سوچا کہ استاد کے ہاتھ میں چاک کیوں ہے اور طاقت کے ہاتھ میں اختیار کیوں، تو کل ہمارے بچوں کے ہاتھ میں کتاب نہیں، بندوق ہوگی۔ خدارا! اپنے استاد کو زندہ رکھیں — کیونکہ جس معاشرے میں استاد مر جائے، وہاں قوم ہمیشہ کے لیے اندھی ہو جاتی ہے۔


