تحریر: اسد مرزا
جہاں سے لفظ بے نقاب ہوں وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
خود کو بیمار سمجھے یا سیاستدان طیفی بٹ کا دبئی سے لاہور تک واپسی کی داستان
کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے لیکن لاہور پولیس نے ثابت کر دیا کہ اگر افسران کے ویزے لگے ہوں تو قانون نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ دبئی تک پہنچ بھی جاتا ہے۔
قتل کیس کے مرکزی ملزم خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ، جو خود کو کبھی "سیاسی شخصیت” تو کبھی "بیمار مریض” سمجھ بیٹھا تھا، آخرکار پنجاب پولیس کی گرفت میں آ ہی گیا۔
ذرائع کے مطابق، طیفی بٹ نے بیماری کا ایسا شاندار ڈرامہ رچایا کہ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا، میڈیکل رپورٹیں تیار کیں، اور امید لگائی کہ شاید اب لندن یا امریکا علاج کے بہانے پہنچ جائے گا۔ لیکن کہانی کا کلائمکس تب آیا جب سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن زیشان رضا، اور ایس ایس پی محمد نوید نے فیصلہ کیا کہ اب طیفی کے ڈرامے کا آخری سین کھیلنے کا وقت آ گیا ہے۔ پولیس کے "سپیشل افسران” کا انتخاب بھی کمال کا نکلا — جن کے پاس دبئی کے ویزے پہلے سے لگے ہوئے تھے۔
یوں ایک “ویزا فرینڈلی“ ٹیم دبئی روانہ ہوئی، جس نے "بیمار طیفی” کو بیڈ سمیت ہسپتال سے اٹھایا، اور تمام تر دعاؤں، دواؤں اور دلاسوں کے باوجود اسے کراچی لے آئی۔ اب اطلاع ہے کہ طیفی بٹ کو کراچی سے لاہور کے چوہنگ پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا ہےجہاں وہ بالاج قتل کیس میں تحقیقات کا "شفاف موقع” پائے گا۔ دبئی عدالت میں جب قاضی صاحب نے پوچھا:
کیا آپ پاکستان جانا چاہتے ہیں؟ تو طیفی بٹ نے شاید تاریخ بدلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا جی ہاں، میں مقدمات کا سامنا کرنا چاہتا ہوں۔”
یوں، دبئی کے قانونی دروازے کھلے، اور لاہور پولیس کے افسران فاتحانہ انداز میں طیفی بٹ کو اپنے "حوالے” میں لے آئے۔
لاہور پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر متوقع طور پر لاہور پہنچنے سے پہلے کوئی نیا میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری ہوا نہ لندن کا ٹکٹ ۔ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ طیفی کے کچھ ساتھی اسے "چھڑانے” کے لیے سرگرم ہو سکتے ہیں، مگر پولیس کا مؤقف واضح ہے: طیفی کو انصاف کا سامنا کرنا ہوگا، چاہے وہ خود کو بیمار سمجھے یا سیاستدان!”


