تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
کسانوں کی فصلیں تباہ ہو گئیں، مویشی مر گئے، گھروں کے چولہے بجھ گئے، مگر حکومت کے فیصلوں کی روشنی اب بھی چمکدار ہے۔ گندم کی خریداری دو سال سے بند، اور اب چینی درآمد کرنے کا نیا عہد۔ کسانوں کے لیے یہ خبر کسی بجلی کی کڑک سے کم نہیں، لیکن شوگر مل مالکان کے چہروں پر چمک دیکھنے کے قابل ہے۔
سیلاب نے 70 فیصد فصلیں برباد کر دیں، کھیتوں میں پانی کھڑا ہے، جہاں پانی اتر گیا ہے وہاں زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے لاکھوں روپے اور بےپناہ محنت درکار ہے۔ مگر حکومت کے نزدیک شاید زمین کا مسئلہ نہیں، سیاست کی زمین زیادہ زرخیز ہے۔ طیفے، گوگی اور شوگر مافیا کے دور میں عوام کی جیب سے ڈیڑھ سو ارب نکل گئے تھے، اور اب حالات ایسے ہیں کہ کسان اپنی برباد فصل پر معاوضہ مانگنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔
اسے بتایا جا رہا ہے کہ 20 نومبر کو ملیں چلیں گی، مگر پہلے چینی باہر سے آئے گی۔ گویا مقامی گنے کے کھیت دیکھ کر بھی حکومت کو بیرونِ ملک کے کنٹینر زیادہ دلکش لگ رہے ہیں۔ کسان احتجاج پر ہے، مگر آواز سننے والا کوئی نہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ "معاشی بہتری کے لیے فیصلے مشکل ہوتے ہیں”، اور کسان سوچ رہا ہے کہ اگر یہ بہتری ہے تو بربادی کیسی ہوتی ہوگی۔ فوڈ باسکٹ کہلانے والا پنجاب آج خالی پیالہ بن چکا ہے۔ مڈل مین اور آڑھتی مافیا وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو برسوں سے جاری ہے — دنوں میں اربوں کی دیہاڑیاں، اور کسان کے ہاتھ میں صرف خالی تھیلی۔ اگر یہی صورت حال رہی تو اگلی فصل تو دور کی بات، کسان کے گھر کا چولہا بھی دوبارہ جلنا مشکل ہو جائے گا۔ انقلاب لانے کی باتیں بہت ہیں، مگر شاید انقلاب تبھی آئے گا جب کسان کی ہل کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے گی۔ اس وقت تک بس چینی درآمد ہوتی رہے گی، آٹا مہنگا ہوتا رہے گا، اور کسان صرف دعا کرے گا — کہ اگلی بار فصل نہیں تو کم از کم امید ہی کچھ بچ جائے۔


