
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
وزیرِاعلیٰ پنجاب کی خواتین پروٹیکشن ٹیمیں بلاشبہ ایک مثبت اقدام ہیں۔ اعلیٰ ایماندار افسران کی تعیناتیاں بھی قانون کی بالادستی کا ایک شاندار ثبوت ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ چند نالائق اور کرپٹ ماتحت اہلکار ایسے ہیں جو لاہور جیسے چاند شہر پر گرہن ڈال دیتے ہیں۔خدا کی اس بستی میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں بااثر چوہدری قانون کو اپنے ڈیرے پر باندھ کر رکھتے ہیں۔ جسے چاہیں اٹھا لیں، قید کر لیں، تشدد کریں اور پھر پولیس کو حکم دے کر اپنی مرضی کا تماشہ کرائیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کوئی تھرپارکر یا اندرونِ سندھ کا پسماندہ گاؤں ہے؟ جی نہیں، یہ ہے لاہور، پنجاب کا دارالحکومت، جہاں وزیرِاعلیٰ مریم نواز شریف کے وژن کے مطابق قانون کی حکمرانی قائم ہے۔مناواں کے علاقے میں نیلم اور اس کے شوہر حارث کو اٹھا کر حویلی میں قید کر لیا گیا۔ پلاسٹک کے پائپوں سے تشدد، حالت غیر ہونے پر گھر بلا کر ڈاکٹر سے علاج، اور پھر کسی فلمی سین کی طرح نیلم نے چھپ کر اپنی والدہ کو وائس میسج بھیجا۔ والدہ شہناز بی بی پولیس اسٹیشن گئیں، لیکن جونہی ملزم کا نام زبان سے نکلا تو محرر کی قلم ٹوٹ گئی۔ قلم ٹوٹنے کی یہ واردات پولیس کے قانونی فلسفے کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ نام بڑے لوگوں کا تھا۔ خاتون نے 15 پر کال کی، ڈولفن بھی پہنچی، پولیس بھی دوڑی لیکن پولیس کے دوڑنے سے پہلے ملزمان کو اطلاع پہنچ گئی۔ ظاہر ہے قانون اندھا تو ہے، لیکن بہروں کی طرح سنتا بہت تیز ہے۔ پولیس کے سامنے بھی شہناز بی بی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا گیا، تاکہ کہیں سچ نہ بول پڑے اور پولیس نیلم تک پہنچ جائے ، جب پولیس ناکام ہوئی تو ملزمان نے بی بی کو عزت کے ساتھ چھوڑ دیا۔ عزت دار رہائی! اب آئیے انصاف کے اگلے منظر کی طرف پولیس نے الزام لگا دیا کہ حارث اور نیلم نے بھینس چوری کی تھی۔ اگر واقعی چوری کی تھی تو مقدمہ کہاں ہے؟ گرفتاری کہاں ہے؟ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ نہ صرف مقدمہ نہیں تھا بلکہ بھینس کی واپسی کے ساتھ ساتھ حارث کی ساس سے امانتا 2 لاکھ 81 ہزار روپے بھی وصول کر لیے گئے۔ اور پھر حارث کو باعزت بری کر دیا گیا۔ کسی افسر نے تھانیدار سے نہ پوچھا کہ چور کو چھوڑا کیوں ؟ واہ رے انصاف، تیرے بھی کیا کہنے۔ بیٹی پر ظلم کی داد رسی کے لیے شہناز بی بی تھانہ مناواں، ڈی ایس پی کے دفاتر کے چکر کاٹتی رہیں۔ مقدمہ درج تو نہ ہوا لیکن چور کے خلاف تفتیشی افسران ملزمان کے ساتھ شہناز بی بی سے صلح کرانے میں زیادہ مصروف نظر آئے شہناز کی انوسٹی گیشن مناواں پولیس چوہدری کی کار پر گارنٹی دینے والے رفیق بلوچ اور بھینس خریدنے والے نوجوان کو اٹھا کر تھانے لے گئے پہلے دباو ڈالا گیا پھر منت کی کہ شہناز سے صلح کروا دو اسے کہیں انصاف مل ہی نہ جائے پھر خود چوہدری رات گئے رفیق بلوچ کو گھر چھوڑ گیا سب حیران تھے کہ پہلے پکڑا ہی کیوں جب اس نے حقیقت بیان کی تو پھر سب پریشان ہو گئے کہ آجکل کے چوہدریوں کو ہو کیا گیا ہے ۔ انصاف کا ایسا کاروباری ماڈل شاید دنیا میں اور کہیں نہ ہو۔اب ذرا لاہور کی دوسری تصویر دیکھیے۔ جیل روڈ میں اگر کوئی آوارہ کتا گم ہو جائے تو پولیس کے افسران کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ سیف سٹی کیمرے، اور پوری مشینری حرکت میں آ جاتی ہے۔ کتا تو آخر خاتو ن کا تھا۔بس یہی لاہور ہے۔ یہی پولیس ہے۔ یہی ہمارا معاشرہ ہے۔
جہاں انسان کی عزت، بھینس اور کتے سے بھی ارزاں ہے۔
اگر یہ الفاظ تلخ لگیں تو معاف کیجیے۔
یہ حقیقت ہے۔ اور حقیقت ہمیشہ طنز سے زیادہ کڑوی ہوتی ہے۔



