واشنگٹن :امریکا میں ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین نے حال ہی میں بدنام زمانہ سرمایہ کار اور جنسی مجرم جفری ایپسٹین کے مینشن سے حاصل کردہ دستاویزات کا ایک اور حصہ جاری کیا ہے، جس میں ٹیکنالوجی کے بڑے نام ایلون مسک (Elon Musk) کا نام بھی سامنے آیا ہے۔
ان دستاویزات نے ایک بار پھر اعلیٰ سماجی حلقوں میں ایپسٹین کے وسیع تعلقات کو بے نقاب کیا ہے۔
اہم انکشافات
جاری کردہ نئے ریکارڈز میں ایپسٹین کی روزانہ کی مصروفیات کا شیڈول شامل ہے، جس میں ایلون مسک کے ممکنہ رابطے کا ذکر کیا گیا ہے۔
جزیرے کے دورے کا منصوبہ
ان دستاویزات میں 6 دسمبر 2014 کی ایک اندراج موجود ہے، جو ایلون مسک کے ایپسٹین کے نجی جزیرے "لٹل سینٹ جیمز” کے مجوزہ دورے کی نشاندہی کرتا ہے۔ شیڈول میں اس اندراج کے ساتھ ایک نوٹ بھی شامل ہے: "یاد دہانی: ایلون مسک جزیرے پر 6 دسمبر (کیا یہ اب بھی ہو رہا ہے؟)”
پس منظر
یہ قابل ذکر ہے کہ 2014 میں یہ منصوبہ اس وقت بنایا گیا تھا جب ایپسٹین پہلے ہی 2008 سے جنسی مجرم کے طور پر رجسٹرڈ تھا۔
جزیرے کا دورہ کرنے والی دیگر اہم شخصیات
ان دستاویزات میں ایلون مسک کے علاوہ دیگر طاقتور شخصیات جیسے برطانوی شاہی خاندان کے پرنس اینڈریو (Prince Andrew)، ارب پتی پیٹر تھیل (Peter Thiel)، اور سابق صدارتی مشیر اسٹیو بینن (Steve Bannon) کے بھی ممکنہ ملاقاتوں یا رابطوں کا ذکر ہے۔
ایلون مسک ردعمل
اس خبر کے سامنے آنے کے فوری بعد، ایلون مسک نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ (X) پر اس حوالے سے ایک نیوز رپورٹ پر مختصر تبصرہ کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی۔ انہوں نے لکھا:
"یہ غلط ہے” (This is false)
واضح رہے کہ ایپسٹین کی جانب سے بنائے گئے روزانہ کے شیڈول میں مذکور ہونا کسی ملاقات یا دورے کے ہونے کا حتمی ثبوت نہیں ہے، خاص طور پر مسک کے نام کے آگے "کیا یہ اب بھی ہو رہا ہے؟” کا سوال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ دورہ غیر یقینی تھا۔
ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹس نے کہا ہے کہ مزید دستاویزات جاری کی جائیں گی، تاکہ ایپسٹین کے جرائم میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
جیفری اپیسٹین کی خودکشی اور“ کلائنٹ لسٹ“
بدنام مالیاتی ماہر اور سزا یافتہ جنسی مجرم جیفری ایپسٹین نے 2019 میں نیویارک کی ایک جیل میں خودکشی کر لی تھی جہاں وہ جنسی جرائم اور سمگلنگ کے الزامات پر مقدمے کی سماعت کے منتظر تھے۔
سرکاری حکام کے پاس ایپسٹین سے متعلق فائلز موجود ہیں جن میں شرمناک تفصیلات ہیں بشمول ایک ‘کلائنٹ لسٹ’ جس میں معروف شخصیات کے نام ہیں جو ایپسٹین کے مبینہ جرائم میں ممکنہ طور پر ملوث تھے۔
ڈائرکٹر ایف بی آئی کاش پیٹل کی جانب سے کلین چٹ
تاہم فروری میں محکمہ انصاف کے اجلاس کے بعد انتظامیہ کے حکام بشمول ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کیش پٹیل اور ان کے نائب ڈین بونگینو، جنھوں نے برسوں تک ایپسٹین کی افواہوں کو ہوا دی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس حوالے سے کوئی بڑے انکشافات موجود نہیں ہیں۔
پھر آٹھ جولائی کو محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے ایک میمو میں کہا کہ ایپسٹین کی موت کی وجہ خودکشی تھی اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ان کے پاس کوئی ‘کلائنٹ لسٹ’ تھی۔
کم عمر بچیوں سے زیادتی کا جزیرہ اور وی وی آئی پی مہمان
ایپسٹین کے جزیروں پر دنیا بھر سے مہمان آتے تھے اور معاشرے میں انہیں بہت اچھا تصور کیا جاتا تھا: مشہور شخصیات، سائنس دان اور شاہی خاندانوں کے افراد، ایک نجی جیٹ میں سوار ہوکر آتے اور پھر ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر جزیرے پر پہنچتے تھے۔
اس کے مالک کو اسے ’لٹل سینٹ جیف‘ کہنا اچھا لگتا تھا۔ مقامی لوگوں نے اسے ’پیڈوفائل جزیرے‘ کا نام دیا۔
لٹل سینٹ جیمز دنیا بھر میں گرومنگ سکیم کا مرکز تھا جس میں ایپسٹین کے لیے کام کرنے والے نوجوان خواتین کو نشانہ بناتے تھے جو بدسلوکی اور ہیرا پھیری کے لیے تیار تھیں، اپنی امیدوں اور خوف کو استعمال کرتی تھیں، انہیں ‘وسیع دولت اور طاقت کا مظاہرہ’ کرکے حیران کرتے اور پھر انہیں دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے ساتھ ساتھ گاہکوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتے تھے۔کچھ متاثرین کی عمریں 12 سال تک تھی ۔ایپسٹین نے ورجن جزائر میں یا اس کے قریب کم عمر لڑکیوں کی ایک کمپیوٹرائزڈ فہرست رکھی تھی جنہیں جزیرے پر لایا جا سکتا تھا۔
ایپسٹین کے مہمانوں میں مشہور ناموں میں طبیعیات دان سٹیفن ہاکنگ، نوبل انعام یافتہ لارنس کروس، کامیڈین کرس ٹکر، اداکار کیون سپیسی، وکٹوریہ سیکرٹ میگنیٹ لیس ویکسنر، ماڈل ناؤمی کیمپبیل، ٹونی بلیئر کے سابق معاون لارڈ پیٹر مینڈلسن اور برطانیہ کے شہزادہ اینڈریو شامل ہیں۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بل کلنٹن بھی مہمان تھے، حالانکہ وہ کبھی وہاں جانے سے انکار کرتے ہیں۔

