تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
لاہور پولیس کے کمالات بھی نرالے ہیں۔ ایک طرف شہر کے گلی کوچے منشیات فروشوں، قبضہ گروپوں اور ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں اور دوسری طرف پولیس کا اصل مورچہ "جھانجر دی پاواں چھنکار” پر قائم ہے۔ جی ہاں! پولیس رپورٹ کے مطابق شہری پر مقدمہ درج کر لیا گیا، جرم یہ کہ گاڑی میں پنجابی گانا اونچی آواز میں چل رہا تھا۔ گویا لاہور کے امن و امان کی سب سے بڑی رکاوٹ نہ ڈاکو ہیں نہ قاتل، ناہوائی فائرنگ کرنے والے بلکہ وہ بیچارہ شہری ہے جو ڈھولکی کے ساتھ پنجابی گانے سے دل بہلا رہا ہے۔
یہ وہی پولیس ہے جو عید میلاد النبی کی رات نواں کوٹ میں ہوائی فائرنگ کرنے والے دو موٹر سائیکل سواروں کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔ صحافی اسد مرزا نے ایمرجنسی 15 پر کال کی، دو گھنٹے انتظار کیا، مقامی پولیس اور سی سی ڈی کے افسران کے فون بھی آئے، لیکن پولیس والے ایسے غائب ہوئے جیسے روزے دار افطار کے بعد مسجد سے۔ دو گھنٹے بعد جب 15 ہیڈ کوارٹر سے کال آئی تو سوال ہوا:
“ہمارا ریسپانس کیسا لگا؟”
جب بتایا گیا کہ صاحب نہ آپ آئے نہ آپ کے افسر، شاید آپ منتظر تھے کہ کوئی زخمی یا ہلاک ہو تب رونق افسران کی حاضری سے بڑھتی، تو وہاں بھی بس خاموشی چھا گئی اور جواب آیا:
“اچھا… آپ کے کمنٹس نوٹ کر لیتے ہیں۔”
یعنی اگر آپ پر فائرنگ ہو جائے تو پولیس کہے گی:
“آپ زندہ ہیں تو کیا مسئلہ ہے؟ جب خدانخواستہ مر جائیں گے تو مقدمہ نمبر فلاں درج کر لیں گے۔”
لیکن اگر آپ گاڑی میں اونچی آواز میں “جھانجر دی پاواں چھنکار” چلا دیں، تو پولیس کی پوری فورس حرکت میں آ جاتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے لاہور میں نئی دفعہ نافذ کر دی گئی ہو:
“اونچی آواز میں گانا بجاؤ، حوالات جاؤ۔”
اب سوچنے کا مقام ہے کہ:
ڈاکو اگر شہریوں کو لوٹیں، تو پولیس کے فون مصروف۔
ہوائی فائرنگ ہو جائے، تو پولیس کا ریسپانس “کمنٹس نوٹ کر لیے گئے ہیں” تک محدود۔
لیکن اگر آپ کے سپیکر سے پنجابی گانے کی آواز اونچی ہو تو فوراً قانون کی کتاب کا ایک نیا باب کھلتا ہے۔
شاید آنے والے وقتوں میں ایف آئی آر یوں لکھی جائے گی:“ملزم گاڑی میں ساونڈ سسٹم لگا کر پنجابی گانا چلا رہا تھا، جس سے امن عامہ خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ لہٰذا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔”
یوں لگتا ہے پولیس کا اصل مقصد امن و امان نہیں بلکہ گانے کی بیٹ کنٹرول کرنا ہے۔ کل کلاں اگر کوئی بچہ اسکول جاتے ہوئے سیٹی بجا دے تو کیا بعید کہ اس پر بھی دہشت گردی کی دفعات لگ جائیں۔



