تحریر :اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان میں اونرشپ نہ لینا شاید کرکٹ کے بعد دوسرا سب سے مقبول کھیل ہے۔ فرد ہو یا ادارہ، سیاستدان ہو یا پولیس، سب کو اس کھیل میں ایسی مہارت حاصل ہے کہ اولمپکس میں مقابلہ رکھا جائے تو ہم سونے کا تمغہ جیت کر ہی لوٹیں۔
کہا جاتا ہے کہ ذمہ داری قبول کرنا کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ لیکن ہماری سیاست میں یہ سیڑھی ہمیشہ ادھوری رہتی ہے۔ کبھی بیچ میں سے لکڑیاں نکال دی جاتی ہیں، کبھی پورا زینہ ہی غائب ہو جاتا ہے۔ موٹر وے ایم ٹو کی مثال لیجیے۔ یہ نواز شریف کا برین چائلڈ تھی، اور واقعی شاہکار نکلی۔ ہمسایہ ملک کے شہری ویزہ لے کر صرف اس کا دیدار کرنے آیا کرتے تھے۔ لیکن جب اس پر وارداتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس بار نواز شریف نے روایتی “کمیٹی بناؤ، رپورٹ لاؤ” والا کھیل نہیں کھیلا بلکہ سیدھا ایس ایچ او خانقاہ ڈوگراں شیخ ارشد لطیف اور ایس ایس پی شیخوپورہ غلام محمد کلیار کو کال ملا دی۔ پیغام بالکل سیدھا تھا: “ڈکیتی ہوئی تو ذمہ داری تمہاری، جواب دہ بھی تم ہو۔”
نتیجہ؟ پولیس جاگ اٹھی۔ کھوجی، مخبر، اور روایتی پوچھ گچھ حرکت میں آئی، 3 ملزمان پکڑے گئے، جو موٹر وے پر جہاں وارداتیں کرتے وہی انکاؤنٹر میں مارے گئے ۔ حیرت انگیز طور پر اس کے بعد موٹر وے واقعی محفوظ ہو گئی۔ وہ بھی ایسے دور میں جب ڈی این اے، جیو فینسنگ اور موبائل لوکیٹر سی ڈی آر محض نصابی الفاظ تھے۔ گویا پنجاب پولیس نے ثابت کیا کہ اگر چاہے تو پاتال سے بھی مجرم نکال لاتی ہے، ورنہ دن دہاڑے ڈاکو پہاڑ بن جاتے ہیں۔ اب ذرا آج کا نقشہ دیکھیے۔ صادق آباد موٹر وے پر ڈاکوؤں نے پولیس کے ڈرون حملے کا بدلہ لینے کے لئے براہِ راست موٹر وے پر قبضہ کر لیا۔ کئی گھنٹے لوٹ مار چلتی رہی، چار مسافر زخمی ہوئے، دس اغوا کر کے کچے میں لے گئے۔ پولیس مغویوں کو بحفاظت بازیاب کروانے کے لئے بھر پور اقدامات کر رہی ہے ۔بتایا گیا ہے کہ ڈاکوؤں نے مختلف گروپوں میں اتحاد کر کے جدید اسلحے سے لیس محاذ قائم کر لیا ہے اور عوام اب یہ سوچ رہے ہیں کہ فوج نہ آئے تو شاید کچے کا بادشاہی سلسلہ یونہی چلتا رہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب ایک وزیرِاعظم نے اونرشپ لی تھی، اور آج کے حکمران شاید صرف پریس ریلیز لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


