تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
لاہور کی فضا میں ایک بار پھر شرطیں لگ رہی ہیں، لیکن یہ شرطیں کسی کرکٹ میچ یا گھوڑ دوڑ پر نہیں بلکہ عدالت کے در و دیوار پر لگی ہیں۔ جواریوں نے تاش کے پتوں اور بدمعاشوں نے پسٹل کے بٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا ہے: "گوگی بٹ کی ضمانت کنفرم ہو گی یا نہیں؟”۔
یہ ہے نیا پاکستان کا اصل جوا، جہاں قاتلوں کی ضمانتیں اور مجرموں کی عزتیں، عوامی دلچسپی کے سب سے بڑے کھیل میں بدل چکی ہیں۔ لیکن اس بار لاہور پولیس کی جے آئی ٹی نے کمال کر دکھایا۔ گوگی بٹ اور اس کے یار طیفی بٹ کے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں تھا کہ کبھی کوئی سرکاری ٹیم ان کے آگے ڈٹ جائے گی۔ بڑے بڑے نوٹوں کے ٹرک ایمانداری کے قلعے کے سامنے الٹے جا دیے گئے، لیکن لاہور پولیس کا کمانڈر وہ نکلا جسے بلیک منی کا رنگ بھی اندھا نہیں کر سکا۔ نتیجہ یہ کہ بدمعاشوں کا منڈیٹ اور سفارشیوں کی جے جے کار سب پانی پھیر گئے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں نظامِ انصاف کے تماش بین ششدر رہ گئے۔ وہ شخصیات جو سمجھتی تھیں کہ لاہور پولیس ان کے اشارے پر ڈھول بجاتی ہے، آج سر پکڑ کر بیٹھی ہیں۔ لگتا ہے پہلی بار تاریخ نے ان کو بتایا ہے کہ "رشوت کی چڑیا” ہر جگہ دانہ نہیں چگ سکتی۔
جے آئی ٹی کے کردار کو سراہنا اس لیے بھی لازم ہے کہ ایسے کیسوں میں عموماً پولیس رپورٹ ملزم کے وکیل سے پہلے ہی ملزم کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ مگر یہاں تو کہانی الٹ لکھی گئی: قاتل کو قاتل کہا گیا،
بدمعاش کو بدمعاش لکھا گیا،اور انصاف کو کاغذ پر صرف انگریزی حروف کی طرح سجایا نہیں گیا بلکہ کچھ حقیقت میں بھی برتا گیا۔ گوگی بٹ اور طیفی بٹ کے سفارشیوں کی فہرست اگر کبھی عوام کے سامنے آ گئی تو ممکن ہے لوگ اپنی دیواروں پر لٹکے "محترم رہنما” کے تصویریں اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیں۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ عدالت کیا کرتی ہے؟ اگر عدالت نے بھی پولیس کی طرح ڈٹ کر فیصلہ دے دیا تو یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا وہ دن ہوگا جس پر بدمعاشوں کی پوری نسل بددعائیں دے گی اور عوام تالیاں بجائیں گے۔
ورنہ اگلی شرط یہی ہوگی: "کون سا بدمعاش اگلی بار گٹکا بانٹے گا اور کس کے نام پر پولیس رپورٹ کا کفن لپیٹا جائے گا؟”


