لاہور: اسد مرزا سے
واشنگٹن میں نئی ہوا چلی ہے، مگر خوشبو کے بجائے ٹیرف کی تلخی پھیل گئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی معیشت کو “ٹیکس کا ٹیکا” لگاتے ہوئے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے، جس کے بعد مختلف ممالک کی برآمدات پر نئے ٹیرف لاگو ہو گئے ہیں — یعنی دوست ہو یا حریف، سب کو "فی صد” کے ذریعے یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ یہ دنیا دراصل ایک بڑی دکان ہے… اور دکان کا مالک صرف ایک ہے۔ پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف لگا، جو کہ نہ زیادہ ہے نہ کم — یعنی امریکی زبان میں “اعتدال پسند سزا”۔ ساتھ ہی بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد ہوا، جسے دیکھ کر کچھ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے فوری ریلیف محسوس کیا: "چلو کم از کم ہم سے زیادہ تو ان کو پڑا!”
کینیڈا پر 35 فیصد، سوئٹزرلینڈ پر 39، اور میانمار پر 40 فیصد ٹیرف لگا کر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر آپ امریکا کے دوست ہیں، تو بھی محتاط رہیں — اور اگر دشمن ہیں تو اپنے سامان کو الوداع کہہ دیں۔
ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ ٹیرف "باہمی مشاورت” کے بعد لگائے گئے۔ یعنی امریکا نے خود سے مشورہ کیا، خود سے سفارش لی، اور خود ہی فیصلہ صادر فرما دیا — ایک مکمل جمہوری خودکلامی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ٹیرف "تجارتی توازن” کے لیے ہیں۔ یعنی امریکا چاہتا ہے کہ دنیا صرف خریدے، بیچے نہیں — اور اگر بیچے تو ٹیرف دے کر، سر جھکا کر، اور شکریہ ادا کر کے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف ایک دن قبل پاکستان اور امریکا کے درمیان "تاریخی” تجارتی معاہدہ طے پایا تھا۔ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک تجارت، سرمایہ کاری اور تعاون کو فروغ دیں گے۔ اب اگر یہ فروغ 19 فیصد ٹیرف کے ساتھ ہوتا ہے، تو باقی دنیا کو اس “فروغ” کا مطلب ڈکشنری میں دوبارہ تلاش کرنا پڑے گا۔
سینئر امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چین کے بارے میں فیصلہ ابھی زیرِ غور ہے، اور بھارت کے ساتھ اختلافات راتوں رات ختم نہیں ہو سکتے — کیونکہ برکس، روس اور “مواخذاتی یادیں” ابھی تازہ ہیں۔
سوال یہ ہے:
کیا پاکستان واقعی امریکا کا "قریبی اتحادی” ہے؟
یا صرف وہ گاہک، جسے رعایت کے بجائے رسید پر ٹیکس زیادہ لکھ کر دی جاتی ہے؟
کیونکہ فی الحال تو "دوستی کے نفع و نقصان” کی رسید پر 19 فیصد ٹیرف صاف درج ہے۔

