شیخوپورہ (بیورو چیف ارشد جاوید بھٹی)
جب آپ شیخوپورہ پاسپورٹ آفس میں داخل ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی ’’ایجنسی‘‘ میں نہیں بلکہ کسی خفیہ دربار میں داخل ہو گئے ہوں—جہاں ہر درخواست گزار کے ساتھ ایک "ایجنٹ بابا” پہلے سے موجود ہوتا ہے، جو لمبی قطاروں، سست سسٹم، اور چائے پینے میں مصروف اہلکاروں کا شارٹ کٹ فراہم کرتا ہے، البتہ مناسب نذرانے کے بدلے۔
لیکن اب اس دربار کے پردے چاک ہو چکے ہیں۔
ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل لاہور نے چھاپہ مار کر شیخوپورہ کے تین بااثر ’’پاسپورٹ پیر‘‘ گرفتار کر لیے ہیں۔ ان کا جرم؟
جی ہاں، ’’پاسپورٹ فوری بنوانے کا جھانسہ‘‘ — وہی سروس جس کے بغیر شاید ہمارے ادارے چل ہی نہ سکیں۔ گرفتار شدگان میں عابد محمود، نعمان ظفر اور فخر عباس شامل ہیں—نام تو عام سے ہیں، لیکن خدمات غیر معمولی تھیں۔ یہ حضرات شہریوں کو خواب دکھاتے تھے: "جناب، لائن میں لگنے کی ضرورت نہیں، چائے پانی دیں اور کل شام بیرونِ ملک اڑان بھریں! ذرائع کے مطابق ایف آئی اے ٹیم نے چھاپے کے دوران وہ سب کچھ برآمد کر لیا جو کسی کامیاب ’’پاسپورٹ دربار‘‘ کو چاہیے ہوتا ہے: پاسپورٹس، ٹوکن سلپس، بینک چالان، رسیدیں، اور نہ جانے کیا کچھ۔
تاہم یہ ابھی طے نہیں ہو سکا کہ جو پاسپورٹ بنے، وہ جلدی بنے یا جلد بازی میں ۔ایف آئی اے حکام نے کہا ہے کہ ملزمان کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ یہ تفتیش کتنی طویل ہوگی، اور کیا واقعی اصل ’’بادشاہ سلامت‘‘ تک پہنچے گی یا صرف درباریوں پر ہی گزارا ہوگا؟ اس سوال کا جواب فی الحال فائلوں میں دبکا بیٹھا ہے۔ ادھر شیخوپورہ کے عوام بھی پریشان ہیں، کیوں کہ اب "ایجنٹ سے رابطہ کریں” کا بورڈ ہٹا دیا گیا ہے، اور اصلی لائن میں لگنا پڑ رہا ہے۔آخر میں صرف ایک سوال:
اگر ایجنٹ پکڑے گئے تو اب عوام جلدی پاسپورٹ کیسے بنوائیں؟ یا شاید اب "فوری” صرف وعدہ رہے گا، خدمت نہیں؟

