لاہور(خصوصی رپورٹ )امریکا میں اس سال تقریباً 15 ہزار چرچ بند ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جو ایک غیر معمولی کمی ہے۔ مختلف عیسائی تنظیموں اور مشیروں کے مطابق، یہ رجحان آئندہ دہائی میں بھی جاری رہے گا۔یہ بندشیں خاص طور پر دیہی علاقوں میں گہرا اثر ڈالیں گی، جہاں چرچز کمیونٹی کی فلاحی سرگرمیوں، جیسے کھانے کی فراہمی، بچوں کی دیکھ بھال اور آفات میں امداد، میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تحقیقات کے مطابق، امریکا میں مذہب سے وابستگی تیزی سے کم ہو رہی ہے ، اب صرف 62 فیصد امریکی خود کو عیسائی قرار دیتے ہیں، جو 2007 میں 78 فیصد تھے۔ دوسری جانب 29 فیصد افراد خود کو مذہبی طور پر غیر وابستہ بتاتے ہیں۔سب سے زیادہ بند ہونے والے چرچز مین لائن پروٹسٹنٹ فرقوں (مثلاً میتھوڈسٹ، پریسبیٹیرین اور لوتھرن) کے ہیں۔ کیتھولک چرچز بھی متاثر ہو رہے ہیں، خاص طور پر جنسی اسکینڈلز اور کم حاضری کے باعث۔دلچسپ بات یہ ہے کہ روایتی چرچز کے زوال کے برعکس، غیر فرقہ وارانہ میگا چرچز تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جن کی بنیاد کرشماتی لیڈرز، سیاست میں اثر و رسوخ اور سوشل میڈیا پر ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان بڑے چرچز کی کامیابی عارضی ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے اراکین میں مستقل وابستگی کم ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر یہ رجحان جاری رہا تو آئندہ چند برسوں میں امریکا کے کل چرچز کا ایک چوتھائی حصہ بند ہو سکتا ہے جو نہ صرف مذہبی منظرنامے بلکہ سماجی ڈھانچے کے لیے بھی ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔
امریکا میں مذہبی بحران شدت اختیار کر گیا، رواں سال 15 ہزار چرچ بند ہونے کا امکان

