تحریر اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
امیر بالاج قتل کیس ایک بار پھر سرِخبروں میں واپس آ گیا ہے، اور اس بار بحث صرف ایک فرد کی گرفتاری تک محدود نہیں رہی بلکہ اداروں کے درمیان اختیار، شفافیت اور احتساب کے بڑے سوالات سامنے آگئے ہیں۔ دبئی سے انٹرپول کے ذریعے مرکزی ملزم خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ کی گرفتاری نے معاملے کو نیا زاویہ دیا ہے اور اسی گرفتاری کے بعد لاہور پولیس اور کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کے درمیان تفتیشی کنٹرول پر کھینچا تانی شدت اختیار کر گئی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی سی سی ڈی سہیل ظفر چٹھہ نے سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کو باقاعدہ مراسلہ لکھ کر کیس کی تفتیش اپنے محکمے کو منتقل کرنے کی سفارش کی لیکن اس تجویز کومسترد کر دیا گیا ، انوسٹی گیشن ونگ نے موقف اختیار کیا کہ مقدمہ پہلے ہی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے زیرِ تفتیش ہے، جو انوسٹی گیشن ونگ کے تجربہ کار افسران پر مشتمل ہے اور جس نے محدود وقت میں شواہد جمع کر کے مقدمہ کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔جے آئی ٹی کی تفتیشی کارروائیوں کے نتیجے میں خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ کو تفتیش کے بعد قصوروار قرار دیا گیا، تاہم وہ اس وقت ضمانت قبل از گرفتاری پر ہے اور اس کی آئندہ عدالت پیشی پر کیس کا حتمی رخ واضح ہونے کا امکان ہے۔ دوسری جانب سی سی ڈی اس کیس کو محض ایک سنگل واقعے کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے منظم گینگ وار کارروائیوں کا حصہ قرار دے رہا ہے—ایسا موقف جو سی سی ڈی کے پاس موجود قانونی مینڈیٹ اور منظم جرائم کے خلاف تجربے کی بنیاد پر جواز مانگتا ہے۔ سی سی ڈی کا کہنا ہے کہ اگر کیس انہی کے پاس پہنچے تو وہ نہ صرف اس قتل کے پیچھے محرکات کھولنے میں کامیاب ہوں گے بلکہ باقی ماندہ نیٹ ورک تک بھی پہنچ کر اس گینگ کو کمزور کر سکیں گے۔لیکن معاملہ یہاں رک جاتا تو آسان تھا؛ اصل سوال یہ ہے کہ تفتیشی کامیابی کس کی ماپنے والی ترازو پر تولی جائے؟ لاہور پولیس کی جے آئی ٹی نے شواہد اکٹھے کیے، مگر ناقدین سوال اٹھاتے ہیں کہ ملزمان کے قریبی ساتھی اب تک کیوں آزاد ہیں اور کن کن سرپرستوں یا سہولت کاروں نے نیٹ ورک کو خوراک فراہم کی؟ طیفی بٹ کی گرفتاری اگرچہ بین الاقوامی معاونت کے باعث ہوئی، مگر اس میں لاہور پولیس کا مرکزی کردار نظر نہیں آیا—یہ واقعہ بعض حلقوں میں پولیس کی سرگرمی اور علاقائی کنٹرول کی کمزوری کی تشریح بھی بنا ہے۔ اس طرح گوگی بٹ کا ضمانت پر ہونا اور دیگر ملزمان کا بحال آزادی سے گھومنا عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں اور سوالات کو ہوا دے رہے ہیں کہ آیا تفتیش شواہد کے مطابق مکمل، آزاد اور بے باطنی سے ہو رہی ہے؟معاملے کی حساسیت نے صوبائی قیادت تک بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ذرائع کے مطابق تنازعہ اب براہِ راست آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے دائرہ اختیار میں پہنچ چکا ہے اور متوقع ہے کہ وہ کل بروز سوموار اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ اس کیس کی تفتیش لاہور پولیس کے پاس رہے گی یا سی سی ڈی کو سپرد کر دی جائے گی۔ اس فیصلے کی نوعیت محض ادارہ جاتی تقسیم کار کا معاملہ نہیں رہے گی، جس ادارے کے ہاتھ میں یہ مقدمہ جائے گا، وہی آگے چل کر لاہور کے گینگ وار نیٹ ورک کے خلاف اگلے قدم کی سمت متعین کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ تفتیش کو محض گرفتاریوں تک محدود رکھنا ناکافی ہے۔ اگر تفتیش سے یہ بات سامنے آئے کہ اس نیٹ ورک کے سہولت کار یا پراسیسنگ میں ملوث پولیس افسران، سرکاری اہلکار یا سیاسی اشخاص ہیں، تو شواہد کی بنیاد پر انہیں علیحدہ قانونی اور محکمانہ کارروائیوں کا سامنا ہونا چاہیے۔ الزام تراشی اور شناخت کے درمیان باریک فرق کو برقرار رکھتے ہوئے ہر قدم شواہد اور قانونی طریقِ کار کے مطابق اٹھایا جانا لازمی ہے تاکہ احتساب کے نام پر کسی کو بے بنیاد طور پر نشانہ نہ بنایا جائے۔مکمل نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے چند فوری اور عملی اقدامات ناگزیر دکھائی دیتے ہیں،پہلی بات یہ کہ لاہور پولیس اور سی سی ڈی فوری طور پر ایک مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کریں جو شواہد کا آزادانہ تبادلہ کرے اور فیلڈ آپریشنز میں باہم ہم آہنگی لائے؛ دوسرے، شواہد کی بنیاد پر عوام کے لیے مختصر اور شفاف سمریز جاری کی جائیں تاکہ شہریوں کا اعتماد بحال رہے اور کسی بھی کارروائی کو سیاسی یا ادارہ جاتی کنٹرول کا شائبہ نہ رہے؛ تیسرا، پولیس کے اندرونی ممکنہ غفلت یا سہولت کاری کے شبہات کی آزادانہ جانچ (Internal Affairs یا متعلقہ نگرانی ادارے کے تحت) ضروری ہے تاکہ جہاں بھی افسران کی شمولیت ثابت ہو، ان کے خلاف محکمانہ اور فوجداری کارروائی عمل میں لائی جا سکے؛ چوتھا، اگر تفتیش سے کسی سیاسی یا سرکاری شخصیت کی ملوثیت ثابت ہوتی ہے تو فوری قانونی قدم، اثاثہ جات کی ریکوری اور فنڈنگ چینل کی بندش کو یقینی بنایا جائے۔شواہد سیو رکھنے، گواہوں کے تحفظ اور شفاف مواصلات کی پالیسی اہم ہے۔ متاثرین اور گواہوں کے لیے سخت حفاظتی اقدامات اور ان کی گمنامی یقینی بنانی چاہیے تاکہ وہ خوف کے بغیر بیانیہ فراہم کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تفتیشی عمل کی پیش رفت کی باقاعدہ رپورٹس شائع کی جائیں تاکہ عوام دیکھ سکیں کہ کیس نمائش کے لیے نہیں بلکہ حقیقی طور پر شواہد کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے۔آخری اور شاید سب سے اہم نکتے کے طور پر یہ کہنا ضروری ہے کہ مضبوط ادارتی تعاون، شواہد پر مبنی کارروائیاں اور غیر جانبدارانہ احتساب ہی وہ راستہ ہیں جن کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ امیر بالاج قتل کیس محض ایک فرد کی سزا تک محدود نہیں—یہ اس بات کا امتحان ہے کہ ہمارا نظام جرائمِ منظمہ کے سامنے کتنا مؤثر، شفاف اور طاقتور رہے گا۔ اگر تفتیش نے واقعی نیٹ ورک کے سرے پکڑ لیے اور ہر سطح پر شواہد کی بنیاد پر کارروائی عمل میں آئی تو پھر ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوئے۔ بصورتِ دیگر، یہ کیس جلد بھلا دیا جائے گا اور گینگ وار کی داستانیں اسی شہر کی گلیوں میں دوبارہ جنم لیں گی۔


