تحریر: سہیل احمد رانا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان میں ایک عجیب سا قومی اتفاق پایا جاتا ہے — سیاست دانوں کے وعدے، محکموں کی کارکردگی، اور ڈاکٹرز کی لکھائی، تینوں کبھی صاف اور واضح نہیں ہوتے۔ پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے ڈاکٹر صاحبان دوا تجویز کرتے ہوئے ایسی ہینڈ رائٹنگ استعمال کرتے ہیں جو کسی عام انسان تو کجا، میڈیکل سٹور کے فارمیسی ٹیکنیشنر کو بھی ایک معمہ لگتی ہے۔
پرچی یا پہیلی؟
مریض ہاتھ میں ڈاکٹر کی پرچی پکڑتا ہے تو یوں خوش ہوتا ہے جیسے اس کے پاس علاج کی گارنٹی آ گئی ہو۔ مگر پرچی پڑھنے کی کوشش کرے تو لگتا ہے جیسے کوئی یونانی زبان کے بعد مصری ہائروگلفکس سامنے آ گئی ہو۔ چنانچہ مریض آخر میں فارماسسٹ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے، اور فارماسسٹ خود پرچی کو گھور کر سوچتا ہے:
"یہ دوا ہے یا ریاضی کا فارمولا؟”
میڈیکل سٹورز کا امتحان
فارمیسی ورکر کبھی پرچی الٹی پکڑ کر دیکھتا ہے، کبھی روشنی کے نیچے رکھتا ہے، اور کبھی دوسرے ورکر سے مشورہ کرتا ہے۔ آخرکار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو سمجھ آیا وہی دے دو۔ اور اگر سمجھ کچھ نہ آئے تو مریض کو ایک مسکراہٹ کے ساتھ سمجھا دیا جاتا ہے:
ڈاکٹر صاحب نے یہی لکھا ہے۔
سابق وزیر صحت کا کمال
یہ کیفیت صرف عام ڈاکٹروں تک محدود نہیں۔ سابق وزیر صحت، جو نہ صرف ایک بڑے پروفیسر بلکہ اپنے شعبے کے مانے ہوئے ماہر سمجھے جاتے ہیں، ان کی ہینڈ رائٹنگ کا عالم یہ ہے کہ بڑے بڑے میڈیکل سٹورز کے تجربہ کار اسٹاف بھی ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں۔ گویا دوا کا نسخہ نہیں بلکہ کسی جج کا خفیہ فیصلہ لکھا گیا ہو، جسے صرف لکھنے والا ہی پڑھ سکتا ہے۔
نتیجہ: مریض کا نصیب
یوں اکثر مریض دوا کھاتے ہیں تو بعد میں سوچتے ہیں. یہ دوا سر درد کے لیے تھی یا پیٹ درد کے لیے؟ خیر… دونوں ایک ہی جسم میں ہیں، اثر کہیں نہ کہیں تو کرے گی۔
حل یا خواب؟
دنیا کے کئی ممالک میں اس مسئلے کا حل نکالا جا چکا ہے۔ وہاں ڈاکٹرز کو ڈیجیٹل یا پرنٹڈ نسخے دینے کا پابند کیا گیا ہے، یا الیکٹرانک پریسکرپشن کا نظام رائج ہے۔ مگر پاکستان میں ابھی یہ سب محض خواب ہے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ ڈاکٹرز کی ہینڈ رائٹنگ کو اگر قومی زبان کا درجہ دے دیا جائے تو عوام کا پہلا سوال یہی ہو گا . اسے پڑھائے گا کون؟
ڈاکٹرز خوش خطی کی کلاسز لیں،عدالت کا بڑا حکم
ہمسایہ ملک کی پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے حال ہی میں واضح کیا کہ “قابلِ فہم طبی نسخہ بنیادی حق ہے” کیونکہ یہ زندگی اور موت کے درمیان فرق ڈال سکتا ہے۔
یہ عدالتی حکم ایک ایسے مقدمے میں آیا جس کا اصل تعلق لکھائی سے نہیں تھا۔ اور جسٹس جسگورپریت سنگھ پوری ملزم کی ضمانت کی درخواست سن رہے تھے۔
خاتون نے الزام لگایا کہ ملزم نے سرکاری ملازمت دلانے کا وعدہ کر کے پیسے لیے، جعلی انٹرویوز کیے اور جنسی استحصال کیا۔
ملزم نے تردید کی اور کہا کہ تعلق رضا مندی سے تھا اور مقدمہ پیسے کے جھگڑے کی وجہ سے بنایا گیا۔
جسٹس جسگورپریت سنگھ پوری نے میڈیکو-لیگل رپورٹ دیکھی، جو سرکاری ڈاکٹر نے خاتون کے معائنے کے بعد لکھی تھی، اور کہا کہ یہ ناقابلِ فہم تھی۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ ایک لفظ یا ایک حرف بھی پڑھنے کے قابل نہیں تھا، اور یہ عدالت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا لمحہ تھا۔
عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ میڈیکل اسکول کے نصاب میں خوشخطی کے اسباق شامل کیے جائیں اور دو سال کے اندر ڈیجیٹل نسخے رائج کیے جائیں۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا، تمام ڈاکٹرز کو نسخے بڑے اور واضح حروف (کیپیٹل لیٹرز) میں لکھنے ہوں گے۔
کیا ہماری عدالتیں بھی کوئی ایسا حکم جاری کرکے مسلے ، کچلے اور استحصال زدہ عوام کے حق میں فیصلہ کرکے دعائیں لیں گی؟


