اسلام آباد( خصوصی رپورٹ) پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ایک نئی اور غیر متوقع پیش رفت نے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ معروف تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر انکشاف کیا کہ گزشتہ چند دنوں میں ہونے والی اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں سے سب سے زیادہ حیران کن اور قابلِ توجہ ملاقات امریکی نیشنل سیکیورٹی کے سابق عہدیدار کاش پٹیل اور پاکستان کے قائم مقام وزیراعظم محسن نقوی کے درمیان ہوئی۔
کوگل مین نے اپنے تبصرے میں کہا کہ یہ ملاقات اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں ایک نئی لچک اور ممکنہ اعتماد سازی کا آغاز ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا۔ پچھلے چند مہینوں میں ہم نے کتنی بڑی اور ناقابل یقین تبدیلی دیکھی ہے۔ ٹرمپ 2.0 حکومت سے یہ توقع تھی کہ پاکستان کو ڈی سی میں بند دروازے ملیں گے، لیکن اب وہ بظاہر کھلتے جا رہے ہیں۔”
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت (ٹرمپ 2.0) کے آغاز پر عام تاثر یہی تھا کہ پاکستان کے لیے واشنگٹن کی پالیسی سخت ہوگی۔ افغانستان سے انخلا، انسدادِ دہشت گردی، اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان کے لیے امریکی دروازے محدود ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں ہونے والی ملاقاتوں اور رابطوں نے اس تاثر کو بدل دیا ہے۔ کاش پٹیل، جو ٹرمپ انتظامیہ میں قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم کردار ادا کر چکے ہیں، ان کی ملاقات ایک غیر معمولی سفارتی اشارہ سمجھی جا رہی ہے۔
محسن نقوی کی حیثیت ایک عبوری وزیرِاعظم کے طور پر امریکی قیادت سے براہِ راست رابطے بھی پاکستان کی بدلتی ہوئی ترجیحات کو ظاہر کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ ملاقات اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان نہ صرف سفارتی سطح پر فعال ہے بلکہ امریکا میں اپنے لیے نئے مواقع تلاش کر رہا ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بعض پاکستانی امریکنز حالیہ عرصے میں غیر معمولی سرگرمیاں کرتے ہوئے پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کو کھلے عام سپورٹ کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ امریکی شہریت کے باوجود سیاسی مداخلت کی حد پار کریں تو انہیں ڈی پورٹ کرنے جیسے سخت اقدامات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں نئے باب کھل سکتے ہیں، خاص طور پر دفاعی تعاون، علاقائی سلامتی اور تجارتی تعلقات کے میدان میں۔ تاہم، ماہرین یہ بھی خبردار کر رہے ہیں کہ یہ ابتدائی اشارے ہیں اور تعلقات کا اصل رخ آنے والے مہینوں میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر منحصر ہوگا۔


