کابل :افغانستان کی عبوری حکومت نے امریکا کی جانب سے افغانستان کی بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان نے اپنی سرزمین پر کبھی بیرونی افواج کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار ذاکر جلالی نے ’ایکس‘ پر پوسٹ کیے گئے اپنے بیان میں مزید کہا کہ دوحہ مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کے دوران اس نوعیت کے کسی امکان کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا۔
ذاکر جلالی نے مزید کہا کہ امریکا کے افغانستان کے کسی بھی حصے میں فوجی موجودگی برقرار رکھے بغیر افغانستان اور امریکہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اقتصادی اور سیاسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے یہ بیان امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حالیہ بیان کے ردعمل میں آیا ہے جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں موجود بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ کو چین کے نزدیک واقع اس فوجی اڈے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف چین نے بگرام ائیربیس کی واپسی کے مطالبے پر کہا ہے کہ چین افغانستان سمیت ہر ملک کی آزادی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ چین تمام فریقوں سے خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
صدر ٹرمپ بگرام ائیر بیس کی واپسی کیوں چاہتے ہیں ، سی این این نے بتا دیا
CNN نے اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں خفیہ طور پر اپنے قومی سلامتی کے اہلکاروں پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ امارت اسلامیہ سے بگرام ایئر بیس واپس لینے کا راستہ تلاش کریں۔
CNN ذرائع کے مطابق، اڈے کو امریکی کنٹرول میں واپس کرنے کے بارے میں بات چیت کم از کم مارچ کے اوائل میں شروع ہوئی تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹرمپ بگرام ائیر بیس کو کئی وجوہات کی بنا پر امریکا کے قبضے میں ہونا ضروری سمجھتے ہیں، جن میں چین کی نگرانی، افغانستان میں نایاب زمینی معدنیات تک رسائی حاصل کرنا، داعش کو نشانہ بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کا مرکز قائم کرنا، اور ممکنہ طور پر سفارتی سہولت کو دوبارہ کھولنا شامل ہے۔


