یوٹاہ :امریکی ریاست یوٹاہ کے گورنر سپنسر کوکس نے انکشاف کیا ہے کہ دائیں بازو کے امریکی کارکن چارلی کرک کے قتل کا ملزم بائیں بازو کی انتہا پسندانہ نظریات سے شدید متاثر تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ 33 گھنٹے خدا سے دعا مانگتے رہے کہ قاتل ہم میں سے نہ ہو کوئی امیگرنٹ یا بلیک ہو۔
رپورٹ کے مطابق سپنسر کوکس نے "وال سٹریٹ جرنل” کو بتایا کہ یہ ہمارے اور تفتیش کاروں کے لیے بہت واضح ہے کہ یہ شخص بائیں بازو کی انتہا پسندانہ نظریات سے متاثر تھا۔ خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹائلر رابنسن حالیہ برسوں میں سیاست میں زیادہ شامل ہو گیا تھا۔ ایک فیملی ڈنر کے دوران اس نے اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ یوٹا ویلی یونیورسٹی میں کرک کے ہونے والے ایونٹ پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔
امریکی اخبار کے مطابق ٹائلر رابنسن ایک قدامت پسند ماحول میں پلا بڑھا۔ اس کی والدہ کی فیس بک پوسٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک شاندار طالب علم تھا جس نے 4.0 کا جی پی اے حاصل کیا اور اے سی ٹی ٹیسٹ میں 36 میں سے 34 نمبر حاصل کیے تھے۔ اس نے 32,000 ڈالر کی یونیورسٹی سکالرشپ بھی حاصل کی اور 2021 کے موسم خزاں میں یوٹا سٹیٹ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم شروع کی لیکن صرف ایک سمسٹر مکمل کیا۔ اس کے بعد اس نے ڈیکسی ٹیکنیکل کالج میں الیکٹریشن کے پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام میں داخلہ لیا جہاں وہ تیسرے سال کا طالب علم تھا۔
رابنسن اپنا زیادہ تر وقت انٹرنیٹ پر گزارتا تھا۔ اس کی والدہ کے مطابق خاندانی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بچپن سے ہی شوٹنگ کی مشقوں میں حصہ لیتا تھا۔ یادرہے راپنسن کے قتل میں ملوث ہونے کے انکشاف سےپہلے تک قاتل کو پھانسی دینے کے مطالبات کئے جاتے رہے ہیں تاہم جب قاتل رابنسن ایک سفید فام قدامت پسند اور مذہبی گھرانے کے رکن کے طور پر سامنے آئے ہیں پھانسی کے مطالبات دم توڑ گئے ہیں ۔
حکام نے اگرچہ اس حملے کے محرک کا انکشاف نہیں کیا لیکن انہوں نے کہا ہے کہ ملنے والے گولہ بارود پر پیغامات لکھے تھے۔ ’’ او فاشسٹ، یہ لو‘‘ یا ‘‘ بیلا چاؤ، بیلا چاؤ، بیلا چاؤ ‘‘ کے پیغامات موجود تھے جو فاشزم کے خلاف ایک مشہور اطالوی گیت کا ایک جملہ ہے۔

