رپورٹ : (ملک ظہیر)
شہر کی سڑکوں پر ایک عجیب سا منظر روز دیکھنے کو ملتا ہے۔ کوئی موٹر سائیکل والا ہاتھ جوڑ کر منت کر رہا ہوتا ہے، کوئی رکشے والا ٹکٹ پکڑے سر جھکائے کھڑا ہوتا ہے، تو کہیں کسی مزدور کے چہرے پر پسینے کے ساتھ آنسو بھی بہہ رہے ہوتے ہیں
۔ یہ سب چالان کی رسیدیں ہیں جو غربت کی آگ میں جلتے گھروں کو مزید بھڑکا دیتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قانون تو سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، لیکن قانون کے نفاذ کے نام پر اگر کسی غریب کے بچوں کے چولہے بجھ جائیں تو یہ انصاف نہیں، ظلم ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ جب شہر بھر کی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں، ہر موڑ پر ٹریفک جام ہے، ہر چوک پر پروٹوکول کے نام پر عوام کو ذلیل کیا جاتا ہے، ہر اسکول کے اوقات میں راستے بند ہوتے ہیں، تو قصوروار صرف وہ سائیکل والا یا رکشے والا کیسے ہو سکتا ہے جس کی جیب میں روز کا کمایا ہوا دو سو کا نوٹ بھی بڑی مشکل سے آتا ہے؟ اعلیٰ افسران کو شاید معلوم نہیں کہ یہ چالان بعض گھروں میں روٹی کی پلیٹ چھین لیتے ہیں۔ بچے بھوکے سوتے ہیں، مائیں سسک کر دُعائیں دیتی ہیں یا بددعائیں—لیکن سڑکوں پر موجود عملہ ٹارگٹ پورا کرنے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ قانون اگر صرف غریب کے لیے ہے تو یہ انصاف نہیں، یہ تو بوجھ ہے جو پہلے ہی کمر توڑ غربت کے نیچے دبے عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ ٹریفک قوانین کی پابندی ضروری ہے، لیکن کیا ریاست نے وہ سہولتیں بھی دی ہیں جو باہر کی دنیا میں دی جاتی ہیں؟ ہموار سڑکیں، اشاروں کا درست نظام، پارکنگ کی سہولت، عوامی ٹرانسپورٹ؟ یہاں تو حال یہ ہے کہ نہ سڑک سیدھی، نہ نظام درست، نہ رش کم۔ لیکن چالان بہرحال ہر حال میں ہو گا—کیونکہ یہ عوام کا قصور ہے کہ وہ اس ملک میں رہتے ہیں جہاں سہولتیں نہیں، صرف جرمانے ہیں۔ سوچنے کا وقت ہے۔ اگر معمولی غلطی پر بھی چالان ہونا ہے تو پھر معمولی سہولت بھی دی جائے۔ ورنہ یہ سلسلہ ایک دن ان معصوم بچوں کے چیخوں میں بدل جائے گا جو رات کو بھوکے سوتے ہیں کیونکہ ان کے باپ کو سڑک پر قانون کی "عملداری” نے روک لیا تھا۔

