تحریر:اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان کی جدید ترین اور سب سے محفوظ سمجھی جانے والی موٹر وے—ایم فائیو—گزشتہ رات ڈاکو راج کا منظر پیش کرتی رہی۔ بھونگ شریف کے قریب پیش آنے والا واقعہ محض ایک واردات نہیں، بلکہ پوری ریاست پر ایک طمانچہ ہے۔ چالیس مسلح ڈاکوؤں نے ڈیڑھ کلومیٹر کے علاقے کو یرغمال بنایا، گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی، شہریوں کو زخمی کیا، اور دس افراد سمیت ایمبولینس تک اغوا کر لی۔ یہ سب کچھ کئی گھنٹے جاری رہا اور پولیس حسبِ روایت کہیں نظر نہ آئی۔
یہ سوال اب عوام کے گلے کا کانٹا بن چکا ہے: اگر اربوں روپے کی لاگت سے بنی موٹر وے بھی ڈاکوؤں کے قبضے میں جا سکتی ہے تو پھر ریاست عوام کو کہاں تحفظ دے سکتی ہے؟ پولیس کا ساڑھے چھ گھنٹے بعد موقع پر پہنچنا نہ صرف مجرمانہ غفلت ہے بلکہ یہ اعتراف بھی ہے کہ قانون کے محافظ خود قانون شکنوں کے سامنے بے بس ہیں۔ مزید حیرت انگیز اور شرمناک بات یہ ہے کہ اس خونریز واقعے کے بعد پولیس کا سب سے پہلا ردعمل "آپریشن کا اعلان” تھا۔
گویا ریاستی نظام ایک ایسے جگت باز میں بدل گیا ہے جو ہر حادثے کے بعد قوم کو لطیفہ سنا کر بہلانے کی کوشش کرتا ہے۔ عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ یہ آپریشن صرف پریس کانفرنس، بیانات اور افسران کے تبادلوں تک محدود رہتا ہے۔ کچے کے ڈاکو نہ کل پکڑے گئے، نہ آج پکڑے جائیں گے، اور کل بھی اسی شان سے راج کریں گے۔
اصل المیہ یہ نہیں کہ ڈاکو موٹر وے پر دندناتے پھرے، اصل المیہ یہ ہے کہ پولیس اور ریاست نے ایک بار پھر اپنے کردار کو شرمندگی کے اندھیروں میں دفن کر دیا۔ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے "بیان جاری” کر دینا، اب جرم سے بھی بڑا جرم لگنے لگا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب خود اس آپریشن کی براہِ راست نگرانی کریں، اور پولیس کو کچے کے ڈاکوؤں کے بجائے عوام کی حفاظت یاد دلائی جائے۔ ورنہ وقت دور نہیں جب موٹر وے کے ہر بورڈ پر لکھا ہوگا:”خبردار! یہ راستہ صرف ڈاکوؤں کے لیے محفوظ ہے۔ مسافر حضرات اپنے رسک پر سفر کریں”۔
ریاست اگر اس طعنہ زنی کے بعد بھی نہ جاگی تو مان لیجیے کہ اب پاکستان میں اصل حاکم وہی ہیں جو رات کی تاریکی میں کچے سے نکل کر دن کی روشنی تک اپنی حکومت چلاتے ہیں۔


