تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
واہ رے قسمت! یہ وہی صاحبانِ اختیار ہیں جو اپنے دفتر کی کرسی کے بازو پر ٹکائے بغیر بیٹھ نہیں سکتے، جن کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولنے کو بھی ڈرائیور نام کی مخلوق کورکھا گیا ہے۔ مگر جب خدمتِ خلق کا جذبہ جاگتا ہے تو پھر کالے چشمے لگا کر اور انگریزی سوٹ پہن کر ایسے کود پڑتے ہیں جیسے انسانیت نے آج انہی کے سہارے بچنا ہے۔
مظفرگڑھ کی جلتی ہوئی دھوپ میں ڈی سی صاحب کی انٹری بالی وڈ ہیرو سے کم نہ تھی۔ آدھی درجن کیمرہ مین دائیں، بائیں اور پیچھے یوں دوڑ رہے تھے جیسے کسی فلم کے پوسٹر کے لیے شوٹنگ ہو رہی ہو۔ صاحب نے بوری کندھے پر رکھی اور تصویر بن گئی۔ اب چاہے عوام کا پیٹ بھرا نہ بھرا، انسٹاگرام کا فریم ضرور بھر گیا۔
اصل کام تو یہ تھا کہ بیٹھ کر شہر کو بچانے کی کوئی حکمت عملی بناتے۔ لیکن پلاننگ کے لیے نہ دھوپ چاہیے، نہ کیمرہ، نہ لائٹ اور نہ ہی ایکشن۔ اور جب فوٹو سیشن کے بغیر کوئی کام ہو تو پھر وہ "خدمت خلق” نہیں بلکہ "ٹائم ضائع” کہلاتا ہے .سچ پوچھیے تو یہ منظر دیکھ کر دل میں سوال اٹھا: کیا ملک کے تمام تمغے واقعی بلیک میں بیچے جا چکے ہیں؟ ورنہ ایسی لازوال قربانی دینے والے، ایسے دردمند عوامی رہنما کو تو کم از کم "تمغۂ سیلفی” تو ملنا چاہیے تھا۔
چھے لوگ تصویریں کھینچنے میں مصروف تھے اور صاحب سامان اٹھا رہے تھے۔ اب یہ کام وہ چھے لوگ بھی کر سکتے تھے، مگر پھر تصویر کون بناتا؟ "لائکس” کہاں سے آتے؟ اور وائرل ہونے کی خواہش کس چڑیا کا نام رہ جاتی؟
آخر میں بس اتنا عرض ہے کہ آئندہ کوئی آفت آئے تو براہِ کرم نوٹس کے ساتھ ہدایت بھی جاری کریں:
"خدمتِ خلق کرنے سے پہلے موبائل کیمرہ مکمل چارج رکھنا لازم ہے۔ خدمت بغیر تصویر ناقابلِ قبول سمجھی جائے گی۔”


