تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان کے گلی کوچوں میں آج کل ایک نئی بیماری پھیلی ہے۔ یہ بیماری بھوک، غربت یا بے روزگاری سے زیادہ مہلک ہے۔ اس کا نام ہے کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانے کی خواہش۔ پہلے یہ خواہش خواب تھی، پھر شوق بنی، اور اب لت۔ اور یہ لت اس قدر خطرناک ہے کہ زندگیاں، خاندان اور نسلیں اس کی نذر ہو رہی ہیں۔ سوچیے، ایک یتیم بیٹا، جو اپنی بیوہ ماں کی پنشن پر زندہ ہے، بنک سے تنخواہ ایڈوانس لے کر، قرض پر قرض چڑھا کر آخر میں صرف اس لیے اپنی جان لینے پر مجبور ہو گیا کہ ’’ورلڈ 777‘‘ نے اسے چند سیکنڈ میں کروڑ پتی بنانے کا جھانسہ دیا۔ وہ بیوہ ماں، جو پہلے ہی بیٹے کے سہارے کو ترس رہی تھی، اب بیٹے کی لاش کے سامنے کھڑی انصاف مانگ رہی ہے۔ لیکن انصاف تو یہاں اونچی کرسیوں پر بیٹھے انہی لوگوں کا غلام ہے، جو ان ایپس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ایک اور مثال لیجیے: زمین بیچنے والا زمیندار۔ جس نے اپنی کھیتیاں، اپنے آبا کی نشانی بیچ ڈالی اور اب بیوی بچوں سمیت سسرال کے در پر جا بیٹھا ہے۔ کل تک جس کے قدموں میں زمین تھی، آج وہ زمین پر بیٹھ کر مانگ رہا ہے۔
ہنر مند نائی، جس کی دکان پر 11 ملازم تھے، خود دوسروں کے صابن اور قینچی پر کام کرنے پر مجبور ہے۔ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ سینکڑوں نوجوان، ہزاروں گھر، لاکھوں خواب ان ’’گیمنگ کمپنیوں‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بھارت جیسے ملک نے اپنی عوام کو بچانے کے لیے ایک ہی قانون سے ان ایپس پر پابندی لگا دی۔ کروڑوں ٹیکس ملنے کے باوجود انھیں اپنے لوگوں کی فکر تھی۔ اور ہم؟ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے بچوں کے مستقبل کو نیلام کر کے، چین سے آنے والی کمپنیوں کے ڈالر گنتی ہے۔
نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کبھی یوٹیوبرز کو پکڑتی ہے، کبھی انفلوئنسرز کو نوٹس بھیجتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جو مافیا اربوں روپے ملک سے باہر بھجوا رہا ہے، وہ اب بھی آزادی سے سانس لے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ایپس اتنی ہی نقصان دہ ہیں تو ان پر پابندی کیوں نہیں لگتی؟ کیا پاکستانی نوجوان بھارتی نوجوانوں سے کم قیمتی ہیں؟ یا پھر ہماری حکومت کے ’’نفع نقصان‘‘ کے ترازو میں عوام کی زندگیوں کا وزن رائی کے دانے سے بھی ہلکا ہے؟
یہ آن لائن جوا دراصل ایک ڈیجیٹل ہیروئن ہے۔ ایک بار لگا لو تو چھٹکارا مشکل ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہیروئن جسم کو تباہ کرتی ہے اور یہ ایپس ذہن، خاندان اور مستقبل کو کھا جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ غریب کا خون ہمیشہ سستا رہا ہے۔ جو لوگ کل ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر ’’چیلنج‘‘ اور ’’پروموشن‘‘ کے نام پر ان ایپس کا اشتہار کر کے پیسے کما رہے تھے، آج بھی ویڈیوز ڈال کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اور غریب؟ وہی پرانی عادت کے ہاتھوں اپنی زندگی برباد کر رہا ہے۔
اگر اب بھی ہم نے سبق نہ سیکھا تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے بچے اسکول کے بجائے جوئے کے ایپس میں داخلے لینے لگیں گے، اور گھروں کے صحن میں گالیوں اور فاقوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا۔ یہ کالم دراصل ایک آہ ہے، ایک چیخ ہے کہ ’’اے ریاست! اے حکومت! خدارا اپنی عوام کو اس ڈیجیٹل قمار خانے سے بچا لو۔ ورنہ یہ آگ سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی۔‘‘


