تحریر :اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
عبدالعلیم خان صاحب نے فرمایا: "گھروں میں آرام سے جا کر سو جائیے، پانی نہیں آ رہا۔”
پارک ویو کے رہائشی مرد و خواتین واقعی سو گئے… مگر جاگے تو پانی کے سمندر میں۔ شاید حکومتی اعلان محض "لوری” تھی، جو عوام کو سلا کر خود کو بچانے کے لیے سنائی گئی۔ یہ خبر جب پریس ریلیز کے قالب میں ڈھالی گئی تو لگ رہا تھا جیسے پنجاب حکومت نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر دیہات کو بچا لیا، سیلاب کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔
مگر حقیقت کا ذائقہ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے، اور یہاں بھی وہی ہے۔ ریلیز میں دعویٰ ہے کہ "درجن بھر گاؤں بچ گئے، سینکڑوں جانیں محفوظ ہو گئیں، روزگار سلامت رہا۔” سوال یہ ہے کہ اگر حکومت اتنی ہی بروقت اور طاقتور تھی تو لاہور کی اونچی اونچی سوسائٹیاں کیوں نہ بچ سکیں؟ وہی پارک ویو جہاں بند باندھے گئے، حکومتی افسران فوٹو سیشن کے لیے تشریف لائے، وہی پارک ویو آخر سیلاب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئی۔ تو پھر معجزہ صرف "چند منتخب گاؤں” میں ہوا یا پھر یہ سب کیمرے کے زاویے کا کمال تھا؟ لگتا ہے کہ بچاؤ کی کارروائی کم اور "پریس کانفرنس” زیادہ تھی۔دریا اپنی زمین کبھی نہیں چھوڑتا ۔۔10سال بعد 50 سال بعد حتی کے 100 سال بھی اپنی زمین واپس لے لیتا ہے۔ بڑوں سے یہ سنا تو تھا لیکن دیکھ اب لیا۔
موہلنوال اور چوہنگ کے درمیان خوشی ٹاؤن یا تھیم پارک کے رہائشیوں کاالزام ہے کہ عبدالعلیم خان کی ہاؤسنگ سوسائٹی پارک ویو کو بچانے کے لئے ان کے گھر ڈبو دئیے گئے حالانکہ شاہ پور کانجراں میں کسی بھی ماضی میں آنیوالے سیلاب میں پانی نہیں آیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے تین سے چار منزلہ گھر ڈوب گئے ہیں اور اس کاذمہ دار حکومت اور پارک ویو سوسائٹی کی انتظامیہ ہے۔
اصل المیہ یہ ہے کہ عوام کو ہمیشہ فلمی کہانی سنائی جاتی ہے ،دکھایا جاتا ہے کہ "سب بچ گیا بتایا جاتا ہے کہ "ہم بروقت پہنچے اور حقیقت یہ ہے کہ کھیت ڈوب گئے، چھتیں ٹپک گئیں، روزگار کا جنازہ نکل گیا۔ اخبارات میں خوشنما تصاویر اور ٹی وی چینلز پر وزراء کے فاتحانہ چہرے یہ تاثر دیتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے کمال کر دکھایا ہے۔ مگر جن کے بچے بھوکے ہیں اور جن کی زمین پانی کے رحم و کرم پر ہے، وہ کس منہ سے شکریہ ادا کریں؟ ان کے "شکریے کے بیان” اتنے ہی اصلی ہیں جتنے بجٹ میں روزگار کے وعدے۔ یوں لگتا ہے کہ سیلاب سے بڑا عذاب یہ "سیاسی فوٹو شو” ہے جو ہر سال پانی کے ساتھ بہتے گھروں اور جنازوں پر کھڑے ہو کر کیا جاتا ہے۔ اگر حکومتی امداد واقعی بروقت ہوتی تو پارک ویو بھی بچتا اور چھوٹے گاؤں بھی۔ لیکن افسوس! حقیقت میں عوام آج بھی پانی میں ڈوبے ہیں، صرف حکومت کے دعوے "کاغذ پر تیرتے” نظر آتے ہیں۔


