تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان میں کئی روایات دم توڑ چکی ہیں لیکن خوشامد کا کلچر آج بھی ویسے ہی زندہ ہے جیسے یہ کبھی مرنے کے لیے پیدا ہی نہ ہوا ہو۔ اگر کوئی روایت ہے جسے پورے وقار، احترام اور محنت سے نبھایا جاتا ہے تو وہ یہی ہے۔پنجاب ہو یا باقی پاکستان، جیسے ہی کوئی نیا افسر تعینات ہوتا ہے تو عوامی خدمت کا پہلا مرحلہ نہ اسکولوں کی حالت سدھارنا ہوتا ہے نہ ہسپتالوں کی مرمت بلکہ پھولوں کے ہار اور مٹھائی کے ڈبے لانا ہوتا ہے۔
دفتر کا ماحول ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے کسی بزرگ ولی اللہ کی آمد ہو گئی ہو۔ لائنیں لگتی ہیں، دعاؤں کی برسات ہوتی ہے، اور یوں لگتا ہے کہ علاقے میں خوشحالی کے دروازے کھلنے ہی والے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں؟ نئے افسر کے ذہن میں یہی الجھن پیدا ہوتی ہے کہ یہ کیسی عوام ہے جو مجھے جانتی بھی نہیں اور پھر بھی اتنی محبت دکھا رہی ہے؟ جواب ملتا ہے کہ یہ عوام نہیں بلکہ وہ مخصوص طبقہ ہے جس کے کام جعلی ہیں، مقدمے زیر التوا ہیں اور کاغذی فائلیں قانون کی دھوپ میں سوکھ رہی ہیں۔
یہ لوگ وہ ہیں جنہیں تبادلے کا حکم نامہ سرکاری نوٹیفکیشن سے پہلے معلوم ہو جاتا ہے۔محنت کش، شریف اور ایماندار شہری ان جلوسوں میں شاذ ہی نظر آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی قسمت میں صرف درخواستیں دینا، فائلیں اٹھانا اور دفاتر کے چکر لگانا ہے۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ نئے افسر کو ہار پہنائیں یا مٹھائی بانٹیں۔ خوشامد کی یہ سہولت صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو کل ہی افسر کی چوکھٹ پر غیر قانونی کام کے لیے حاضری دینے والے ہیں۔
ایک اعلی پولیس بیمار کیاہوا اس کی تیمارداری کے لئے آنے والے صاحب حثیت افراد قیمتی تحائف اور درجنوں پھلوں کی پیٹیاں بھی لے آئے بعد میں یہ پیٹیاں پھل والے کو فروخت کرنا پڑیں۔لاہور کے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ایک شخص عمرہ کر کے واپس آیا اور بطور تحفہ تسبیح، جائے نمازآب زم زم اور کھجوروں کے ساتھ نیا ماڈل آئی فون بھی پیش کیا۔ افسر نے پوچھا کہ یہ عمرہ کی سعادت تھی یا موبائل کی تجارت تب موبائل واپس کر دیا گیا۔ ایک اور افسر نے کہا کہ اب تحائف میں مہنگے برانڈ کے خواتین کے کپڑے بھی آتے ہیں، ساتھ رسید بھی تاکہ اگر رنگ پسند نہ آئے تو تبدیل کیا جا سکے۔
کئی بار تعلقات اتنے ذاتی ہو جاتے ہیں کہ افسران کے اہل خانہ کے ساتھ بھی دعوتیں اور مراسم بڑھ جاتے ہیں۔یہ کلچر بعض اوقات اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ لوگ اپنے کاروبار بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لاہور کے ایک ہوٹل مالک جس کے کئی ہوٹلز تھےنے بتایا کہ ہر افسر کو ماہانہ رشوت اور تحفے دینا اس کے لیے ممکن تھا، لیکن جب نئے افسر سے بھی گہری دوستی بن گئی تووہ نئی پوسٹنگ میں بھی جاکر تحائف کا تقاضا کرتا ایسے میں ایک کے بجائے دو نذرانے دینے پڑتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے تنگ آ کر کاروبار ہی بدل لیا۔
افسران جلد ہی یہ سمجھ جاتے ہیں کہ خوشامد کا یہ قبیلہ دراصل کرسی کا عاشق ہے، شخص کا نہیں۔ جو آج پھولوں کے ہار ڈال رہے ہیں، کل وہی ان کے تبادلے پر جشن بھی منائیں گے۔ خوشامد کا یہ کاروبار محبت نہیں بلکہ وفاداری کا سب سے مختصر معاہدہ ہے جو صرف کرسی کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔لہذا پنجاب میں جب بھی کسی افسر کا تبادلہ ہو، دو تقریبات لازمی ہوتی ہیں۔ پہلی، آمد پر خوشامد کا جشن جہاں ہار، پھول، مٹھائیاں اور میٹھے وعدے ہوتے ہیں۔ دوسری، رخصتی پر خوشامد کا جنازہ جہاں افسوس کے بیانات ہوتے ہیں اور اگلے افسر کے لیے پھر وہی قافلہ تیار کھڑا ہوتا ہے۔آخر میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی کسی ایماندار افسر کے انتظار میں ہیں یا صرف اس کرسی کے جس پر بیٹھنے والا ہمارے کام نکلوائے۔ کیونکہ خوشامد کی سیاست میں اصول سادہ ہے، افسر بدلتا ہے، خوشامدی نہیں


