الاسکا، امریکا: فارسی کا محاورہ ہے نشستند و گفتند و برخاستند یعنی بیٹھے بات چیت کی اور چل دئیے ،،، ایسا ہی کچھ منظرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان الاسکا میں ہونے والی ملاقات میں نظر آیا جہاں اتنی بڑی ملاقات کے بعد صحافیوں کو بریف تک نہ دیا گیا ۔۔ اور وہ ملاقات جس پر پوری دنیا کی نظریں جمی تھیں بغیر کسی واضح جنگ بندی معاہدے کے اختتام پذیر ہو گئی۔
یہ ملاقات، جسے یوکرین میں جاری جنگ کے خاتمے کی جانب ایک اہم قدم سمجھا جا رہا تھا، محض چند گھنٹوں تک جاری رہی۔ دونوں رہنماؤں نے ملاقات کو "بھرپور اور نتیجہ خیز” قرار دیا، تاہم یوکرین کے ساتھ جاری تنازعے میں کسی ٹھوس پیشرفت کا اعلان نہیں کیا یعنیآئے بھی وہ، گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا۔

اس ملاقات کا بنیادی مقصد یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے راستہ تلاش کرنا تھا۔ تاہم، ملاقات کے بعد جاری کردہ بیانات میں کسی بھی فریق کی طرف سے جنگ بندی یا کسی اور پابند عہد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی اور نیٹو کے اتحادیوں سے بات کریں گے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ مذاکرات کے دوران ابھی بھی کچھ بڑے اختلافات باقی ہیں۔
دوسری جانب، صدر پوتن نے کہا کہ یہ بات چیت تعمیری رہی، لیکن انہوں نے بھی جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی واضح ٹائم لائن نہیں دی۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی کو اس ملاقات میں شامل نہیں کیا گیا تھا، اور کیف نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ وہ کسی ایسے معاہدے کو قبول نہیں کرے گا جس میں یوکرینی سرزمین کی قربانی شامل ہو۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب یوکرین کے مشرقی علاقوں میں روسی حملے جاری ہیں، اور فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ روس مذاکرات کو وقت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے تاکہ وہ اپنی فوجی پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکے۔ اس ملاقات نے عالمی سطح پر پوتن کی سفارتی تنہائی کو توڑنے میں بھی مدد کی، کیونکہ مغربی ممالک کی جانب سے ان کی شدید مذمت کی جاتی رہی ہے۔


