اسلام آباد( اسد مرزا کی خصوصی رپورٹ )
اسلام آباد سے باخبر ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ تحریک انصاف اور طاقتور حلقوں کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگر یہ رابطے کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ آئندہ مہینوں میں ملک کے سیاسی منظرنامے کو یکسر بدل سکتے ہیں۔یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب صدر آصف زرداری بلاول بھٹو کو وزیر اعظم نہ بنائے جانے پر ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں، جبکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی حالیہ دنوں میں عمران خان سے پردے کے پیچھے مذاکرات کی خواہاں رہی۔ تاہم فیصلہ سازی میں تاخیر نے سیاسی حالات کا رخ بدل دیا۔
سیاسی ہواؤں کے رخ میں تبدیلی کا پہلا اشارہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے مبینہ فرنٹ مین کی گرفتاری سے ملا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ صرف ابتدائی قدم ہے اور اگلے مرحلے میں مزید ہائی پروفائل گرفتاریاں متوقع ہیں جو حکومت کی بنیادیں ہلا سکتی ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طاقتور حلقوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بیک ڈور مذاکرات کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں 1988 میں بے نظیر بھٹو کی واپسی، 2007 میں میثاق جمہوریت، اور 2018 کے انتخابات کے بعد کے حالات میں بھی پس پردہ رابطوں نے سیاسی منظرنامہ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ رابطے اکثر بحران کے وقت ایک نئے پاور شیئرنگ فارمولا یا ہنگامی سیاسی سمجھوتے کی راہ ہموار کرتے رہے ہیں۔آئین پاکستان کے تحت حکومت کی تشکیل، وزیراعظم کا انتخاب اور اسمبلی کی تحلیل کے اختیارات واضح طور پر درج ہیں، مگر بیک ڈور رابطے اکثر ان آئینی عملوں کے متوازی چلتے ہیں۔ اگر یہ رابطے آئینی حدود سے باہر نکل جائیں تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ جمہوری عمل کو مضبوط کرتے ہیں یا کمزور؟ اس بار بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ پردے کے پیچھے ہونے والے فیصلے پارلیمنٹ کی بالادستی اور شفافیت پر اثر ڈال سکتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق آنے والے دن پاکستان کی سیاست میں ایک نئے اتحاد یا بڑے سیاسی سمجھوتے کا آغاز ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر بیک ڈور ڈپلومیسی ناکام ہوئی تو عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا۔ اس دوران ایسی خبریں بھی ہیں کہ پرتگال، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی شہریت رکھنے والے سیاستدان اور بیوروکریٹ ملک چھوڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں لیکن اس سے قبل انکی گرفتاریوں کا فیصلہ ہو چکا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔آخرکار، سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیش رفت پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی یا یہ محض ایک اور بحران کو جنم دے گی؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے لمحات اکثر فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں، مگر ان کا نتیجہ ہمیشہ عوام کی توقعات کے مطابق نہیں نکلتا۔


