واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو یکم اگست سے انڈیا سے درآمد ہونے والی اشیا پر 25 فیصد درآمدی ٹیرف کے علاوہ روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے جرمانہ بھی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر ڈونلڈ ٹرپ نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ انڈیا دوست تو ہے لیکن وہ امریکی مصنوعات پر زیادہ محصولات عائد کرتا ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں#
ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا نے ہمیشہ سے امریکہ کے ساتھ تجارت کو مشکل بنانے کے لیے ’انتہائی سخت اور ناقابل برداشت غیر مالیاتی رکاوٹیں‘ کھڑی کی ہیں، جن کی وجہ سے دو طرفہ تجارت محدود رہی ہے۔’ہم نے انڈیا کے ساتھ کئی دہائیوں میں بہت کم تجارت کی ہے کیونکہ ان کے ٹیرف بہت زیادہ ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ عدم توازن ختم کیا جائے۔‘
ٹرمپ نے الزام لگایا کہ انڈیا روس سے تیل اور دفاعی ساز و سامان خرید کر بالواسطہ یوکرین جنگ کو طول دے رہا ہے اور اسی وجہ سے اضافی درآمدیٹیکس جسے ا نہوں نے جرمانہ قرار دیا یکم اگست سے نافذ کیا جائے گا۔
یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں بظاہر بہتری دکھائی دے رہی تھی۔ تاہم روس سے انڈیا کی تیل اور دفاعی خریداری پر واشنگٹن میں خدشات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر یوکرین جنگ کے پس منظر میں۔
ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت چین کے مقابلے میں مغربی بلاک سے قریب ہوتا جا رہا تھا۔
بھارت امریکا دوطرفہ تجارت حجم
امریکی حکام کے مطابق 2024 میں انڈیا اور امریکہ کا دو طرفہ تجارتی حجم تقریباً 191 ارب ڈالر رہا جس میں انڈٰیا نے امریکہ کو تقریباً 118 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں جب کہ امریکہ انڈیا کو تقریباً 73 ارب ڈالر کی مصنوعات ہی برآمد کر پایا اس طرح امریکہ کو انڈیا کے ساتھ تقریباً 45 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ رہا۔
انڈیا اور بھارت کا کاروبار
انڈیا امریکہ کو ٹیکسٹائل، دواسازی، زیورات، انجینئرنگ مصنوعات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سروسز برآمد کرتا ہے جب کہ امریکہ انڈیا کو طیارے، دفاعی آلات، سافٹ ویئر، اور توانائی سے متعلق اشیا فراہم کرتا ہے۔
بھارت کی خاموشی
ٹرمپ کے اس فیصلے پر انڈیا کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔

