لاہور: (خصوصی رپورٹ اسد مرزا)پنجاب میں جرائم کے خلاف "سی سی ڈی ماڈل” کی کامیابی، دیگر صوبے بھی اقدامات کے لیے تیارہیں۔
لاہور پنجاب میں حالیہ مہینوں کے دوران سنگین جرائم میں نمایاں کمی کے بعد ’کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ‘ (CCD) کی کارکردگی کو ملک بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ صوبائی حکام کے مطابق اس خصوصی یونٹ کے قیام کے بعد نہ صرف قتل، اغوا، بھتہ خوری اور ڈکیتی جیسے جرائم میں کمی آئی بلکہ ایک عرصے سے قائم ‘ڈالا کلچر’ کا بھی مؤثر انداز میں خاتمہ کیا گیا ہے۔
پنجاب میں CCD ماڈل کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی اس طرز کی فورس قائم کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔
سی سی ڈی کیا ہے؟ سہیل چھٹہ نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے
سی سی ڈی یعنی کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ، پنجاب پولیس کا ایک نیا یونٹ ہے جسے خصوصی اختیارات اور تربیت کے ساتھ متعارف کروایا گیا۔ اس یونٹ کو منظم جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف براہِ راست کارروائی کا مینڈیٹ دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق سی سی ڈی نے قلیل مدت میں متعدد اہم کارروائیاں کیں، جن میں درجنوں مطلوب ملزمان کی ہلاکت یا گرفتاری شامل ہے۔ ان کارروائیوں کے بعد صوبے بھر میں خطرناک جرائم کی شرح میں واضح کمی دیکھی گئی۔
دیگر صوبوں کی دلچسپی
پنجاب میں سی سی ڈی کی کامیابی کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ نے اپنے آئی جی پولیس کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ بھی اپنے صوبوں میں سی سی ڈی طرز پر یونٹ بنانے کا عملی روڈ میپ تیار کریں۔
ذرائع کے مطابق دونوں صوبوں کی حکومتیں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں CCD جیسے یونٹس کے قیام کے لیے فنڈز مختص کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسی اسپیشل فورسز نہ صرف جرائم کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوں گی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال کریں گی۔
سی سی ڈی پنجاب میں سربراہ کا کردار
پنجاب میں سی سی ڈی کی قیادت ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ کر رہے ہیں جنہیں اس فورس کی تنظیمِ نو اور اس کی کارروائیوں کی نگرانی کا ٹاسک سونپا گیا۔ سہیل ظفر ماضی میں بھی پنجاب پولیس میں کئی اہم اور کامیاب اصلاحات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق ایڈیشنل آئی جی نے تمام اضلاع میں سی سی ڈی کی مؤثر موجودگی کو یقینی بنایا ہے، اور خطرناک مجرموں کے خلاف براہِ راست کارروائیاں کر کے قانون کی عملداری بحال کی ہے۔
عوامی سطح پر پذیرائی
سی سی ڈی کو جہاں حکومت کی جانب سے سراہا جا رہا ہے، وہیں عوامی سطح پر بھی اس فورس کو بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر شہریوں نے سی سی ڈی کی کارروائیوں کو سراہتے ہوئے اُسے جرائم کے خلاف ’فیصلہ کن قوت‘ قرار دیا ہے۔
لاہور کے ایک تاجر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا:
"کبھی ہم دکان بند کر کے بھی خوف میں مبتلا رہتے تھے، لیکن اب رات گئے بھی شہر میں امن محسوس ہوتا ہے۔”
تنقید اور تحفظات
تاہم، انسانی حقوق کے چند کارکنان اور تنظیمیں اس ماڈل پر تنقید بھی کرتی آئی ہیں، جن کے مطابق ماورائے عدالت مقابلوں یا گرفتار ملزمان کے ساتھ سلوک پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
سی سی ڈی حکام کا مؤقف ہے کہ تمام کارروائیاں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی گئی ہیں اور کسی بھی شہری یا ملزم کے بنیادی حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔
کیا سی سی ڈی ماڈل پورے پاکستان میں قابلِ عمل ہو گا؟
ماہرین کے مطابق اگرچہ سی سی ڈی ماڈل نے پنجاب میں قلیل وقت میں مثبت نتائج دیے ہیں، تاہم اس کی دیگر صوبوں میں کامیابی کا انحصار مقامی حالات، پولیس کی تربیت اور قانون کی بالادستی پر ہوگا۔
پولیس اصلاحات پر کام کرنے والے ایک ماہر کا کہنا تھا:
"کسی بھی فورس کو بااختیار بنانا تبھی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے جب اُس کے ساتھ احتساب، شفافیت اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔”
نتیجہ
پنجاب میں سی سی ڈی ماڈل کی کامیابی نے پولیس اصلاحات کے باب میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جہاں اس کی کارروائیوں کو سراہا جا رہا ہے، وہیں اس ماڈل کی وسعت اور مؤثریت پر مزید غور کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہوگا کہ کیا دیگر صوبے اس ماڈل کو کامیابی سے اپنا پائیں گے یا نہیں
کیا سی سی ڈی ماڈل پورے پاکستان میں قابلِ عمل ہو گا؟

