تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
وقت کیسے بدلتا ہے جناب!
کل تک جس ملک کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ "یہ ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے” آج اس کی معیشت مستحکم، قیادت متحد، اور دنیا کی کلیدی طاقتیں اس کے قدموں میں جھک رہی ہیں۔ ایسے جملے پڑھ کر تو بندہ سوچتا ہے کہ شاید ہمارے وطن کی قسمت بدلنے کے لیے کوئی "جادوئی ساقی” کہیں سے برآمد ہوا ہے، جس نے شراب میں ایسا رس گھول دیا کہ ڈالر کا ریٹ بھی مسکرا اٹھا اور قرض خواہ بھی دوستی کے گیت گانے لگے۔
یہ الگ بات ہے کہ ہمارے عوام کی جیب میں اب بھی "مہنگائی کا نوٹ” رکھا ہے، جس کی قیمت اتنی ہے کہ بس نوٹ ہی رہ گیا، خریداری کے قابل نہیں۔ لیکن خیر، معیشت مستحکم ہو رہی ہے صاحب! بس وہی والا استحکام جو ہسپتال کے آئی سی یو میں پڑے مریض کو کہہ دیا جائے: "گھبراؤ نہیں، آکسیجن لگی ہوئی ہے، حالت مستحکم ہے۔”
بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد قیادت کو "دوبارہ حمایت” مل گئی۔ سبحان اللہ! گویا قومی اتحاد کے لیے ہمیں روز کسی جھگڑے کی ضروت ہے، جیسے شادی شدہ زندگی میں بیوی کے ساتھ معمولی سا جھگڑا ہو تو پھر صلح کے وقت محبت کے ڈرامے زیادہ گہرے لگتے ہیں۔
اور یہ اتحاد "کلیدی طاقتوں” کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ جی ہاں، زندہ ایسے جیسے قبرستان میں مردے کو کہہ دیا جائے کہ اب اٹھ جا، تمہیں دوبارہ سپر پاورز کے ساتھ معاہدہ کرنا ہے۔ وہ معاہدے بھی عجیب ہیں، جیسے ہم "گراؤنڈ” دیتے ہیں اور وہ "ڈالر” دیتے ہیں، ہم "حوصلہ افزائی” لیتے ہیں اور وہ "ہدایات” دیتے ہیں۔
اصل کمال تو محترم امریکی تھنک ٹینک کے سربراہ کا ہے، جنہیں یہ نظر آیا کہ "پاکستان ترقی کر رہا ہے”۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے ڈاکٹر مریض کو دیکھ کر کہے: "بخار 104 ہے، لیکن گھبرائیں نہیں، جسم میں گرمی پیدا ہو رہی ہے، یہ اچھی علامت ہے۔”
آخر میں بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں:
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام. ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔۔
ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ قوم آج بھی خالی پیٹ، خالی جیب اور بھاری بلوں کے ساتھ "مستحکم معیشت” کا مزہ چکھ رہی ہے۔



