تحریر: حافظ نعیم
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
بارشوں اور سیلاب نے جہاں کھڑی فصلیں بہا کر اجناس کی قلت، بھوک اور غربت کی لہر پیدا کی ہے، وہیں بیماریاں بھی حکومت کی کارکردگی کا جھنڈا بلند کر رہی ہیں۔ ڈینگی پہلے ہی غریبوں کے گھروں کو مچھر دان بنائے بیٹھا تھا کہ اب شہر میں ایک اور مہمان تشریف لے آیا ہے — جی ہاں! مونکی پاکس۔
جنرل ہسپتال میں پہلا مریض رپورٹ ہو گیا۔ نام ہے رحمت علی، جو کہ غریب ہونے کے باعث پہلے ہی غربت نامی بیماری کا شکار تھا، اب مونکی پاکس نے بھی اپنی خدمات پیش کر دی ہیں۔ محکمہ صحت کی ریفرنس لیب نے ٹیسٹ مثبت آنے کی تصدیق کر دی ہے۔ اور حسبِ روایت، مریض کو فوراً آئسولیشن میں منتقل کر دیا گیا تاکہ کم از کم بیماری کو "VIP پروٹوکول” دیا جا سکے، چاہے مریض کا کچھ ہو یا نہ ہو۔ایم ایس جنرل ہسپتال نے بیان دیا رحمت علی مونکی پاکس کی علامات کے ساتھ آیا تھا، ہم نے اسے الگ کر کے علاج شروع کر دیا ہے۔ ادھر عوام سوال پوچھ رہی ہے کہ یہ "علاج” کتنا ہے؟ کیونکہ پچھلے مریضوں کو تو دو پیناڈول اور ایک مشورہ ملتا تھا: "گرم پانی زیادہ پیا کریں۔”
سیلاب کی تباہ کاریاں، اجناس کی قلت، غربت کی وبا، ڈینگی کے کاٹے، اور اب مونکی پاکس کی آمد… لگتا ہے پاکستان کے عوام پر بیماریوں کی ورلڈ کپ ٹیم اُتری ہوئی ہے، اور ہر نیا مرض "مین آف دی میچ” بننے کے لیے کوشاں ہے۔
کیا حکومت کے پاس ان سب کا حل ہے؟ جی ہاں — ایک "اعلامیہ”! جیسے ہر آفت کے بعد آتا ہے۔
عوام کو تو شاید دوا نہ ملے، مگر یقیناً ایک نئی "پریس کانفرنس” ضرور ملے گی۔ عوام کا سوالیہ سب وبائیں ہمارے نصیب میں ہی کیوں لکھی گئی ہیں؟ یا یہ بھی کسی عالمی سازش” کا حصہ ہے جس میں صرف ہمارا پیٹ اور صحت ٹارگٹ پر ہیں؟


