تحریر :سہیل احمد رانا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
سرحدیں انسان نے کھینچی ہیں، دریا نے نہیں۔ پانی کے آگے نہ باڑ ہے، نہ دیوار، نہ ویزا، نہ پاسپورٹ۔ پانی بہتا ہے اور اپنی روانی میں یادوں، رسموں اور رشتوں کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ وہی پانی جو کبھی ایک ہی دھرتی کو سیراب کرتا تھا، آج باری باری پاکستان اور بھارت کی زمینوں کو چھوتا ہے۔
دریائے راوی کو دیکھیے، شکرگڑھ سے نکل کر واہگہ لاہور تک سفر میں انیس بار کبھی بھارت میں جاتا ہے اور کبھی پاکستان میں۔ جیسے کہ وہ بار بار انسانوں کو جھنجھوڑ رہا ہو کہ “میں تو ملاتا ہوں، تم کیوں جدا کرتے ہو؟”۔
اسی طرح دریائے ستلج قصور کے گنڈا سنگھ والا سے سلیمانکی تک آٹھ بار دونوں ملکوں کے دامن کو چھوتا ہے۔ جیسے کہ یہ دریا کہہ رہے ہوں:
“نفرتوں کی دیواروں کے بیچ، محبت کی راہیں ہم ہی نکالتے ہیں۔”
ہماری تہذیب، ہمارا کلچر، ہمارے گیت اور ہمارے دکھ سکھ سب ایک ہیں۔ آج بھی دونوں جانب کے گاؤں میں وہی مٹی کی خوشبو ہے، وہی ساون کی بوندوں پر جھومتی کھیتیاں ہیں، وہی دیہات کے چوپال ہیں جہاں لوگ ایک دوسرے کو یاد کرتے ہیں۔ فرق صرف ان لکیر کا ہے جسے سرحد کہتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
دریا کبھی رکتا نہیں، چاہے راہ میں کتنا بھی پتھر آ جائے،
محبت بھی وہ دریا ہے، جو بندشوں کے باوجود بہتی رہتی ہے۔
سوچنے کی بات ہے، اگر دریا سرحد پار کر سکتے ہیں تو انسان کیوں نہیں؟ کیوں ہمارے دل اتنے تنگ ہو گئے ہیں کہ ایک ہی زبان بولنے والے، ایک ہی گیت گانے والے ہمیں اجنبی لگنے لگے ہیں؟ دریا ہمیں سکھاتے ہیں کہ نفرتیں عارضی ہیں، لیکن رشتے اور محبتیں دائمی۔
شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم دریا سے سبق لیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم چاہے بچھڑ جائیں، لیکن الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ دریا سرحدیں توڑ سکتے ہیں، تو ہمارے دل کیوں نہیں؟

