تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں اگر کوئی پولیس افسر، کوئی انجینئر یا کوئی عام مزدور بھی سیلاب روکنے یا شہر بچانے کا درست طریقہ بتا دے، تو اُس کی بات کو سن کر فوری عمل کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان ہے جناب! یہاں عقل کے بیج صرف تقریروں میں بوئے جاتے ہیں اور فصل سیاستدانوں کی خوشنودی کی کاٹی جاتی ہے۔
ڈی ایس پی لطیف احمد، جسے مقامی لوگ محبت سے “بیرو“کہتے ہیں، نے اپنی سادہ مگر ٹھوس عقل استعمال کرتے ہوئے 9 ستمبر کو اعلیٰ افسر کو خط لکھا “جناب، اگر جلال پور کو بچانا ہے تو اچ شریف روڈ پر کٹ لگائیے۔”
یہ سچائی افسرِ شاہی کی طبعِ نازک پر یوں گری جیسے گرمیوں میں بجلی کا بل غریب کے دل پر گرتا ہے۔ نتیجہ؟ نہ سیلاب رُکا، نہ جلالپور بچا، بس “بیرو“ کو معطل کر دیا گیا۔
دو دن بعد ہوا کیا؟ وہی کٹ لگایا گیا، بالکل وہیں، جہاں بیرو نے کہا تھا۔ گویا افسر شاہی کے کان میں ڈالنے سے بات گندی لگتی تھی، مگر سیاسی ہدایت پر وہی بات خوشبو بن جاتی ہے۔ مقامی لوگ چیخ رہے ہیں کہ جلال پور کی ڈیڑھ لاکھ آبادی کو ڈبونے کا اصل مقصد ایک ن لیگی رکن اسمبلی، ملک نازک کریم لانگ کی برادری کے بیس ہزار افراد کو بچانا ہے، جو دریا کے قدرتی راستے دراب پور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔ “بیرو“ نے صاف کہا تھا: دریا کا راستہ دریا کو دے دو، مگر یہاں سیاست نے دریا کو بھی اپنی جیب میں ڈال لیا تب “بیرو“ کو سزا ملی۔ ہمارے ملک میں عقل کی کوئی وقعت نہیں جب تک وہ کسی سیاسی ٹویٹر اکاؤنٹ یا اسمبلی کے مائیک سے نہ نکلے۔ “بیرو“ کی بصیرت قربانی چڑھ گئی، لیکن افسوس یہ ہے کہ اس قربانی کا بکرا صرف ایک افسر نہیں، بلکہ جلال پور کے لاکھوں باسی ہیں جو پانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے۔
شاید تاریخ کبھی لکھے کہ جلال پور ڈوبا، مگر “بیرو“ کی عقل ڈوبی نہیں۔ ڈوبی تو افسر شاہی کی نازک غیرت اور سیاستدانوں کی طنزیہ مسکراہٹ۔




