لاہور (اسد مرزا کی رپورٹ )
"جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے”
پنجاب میں ایک ایسا کھیل کھیلا گیا کہ اگر اسے ٹی وی ڈرامہ بنا دیا جائے تو شاید سینسر بورڈ بھی کہہ دےیہ حد سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ یہ کھیل پولیس نے ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر کھیلا، اور اس کھیل کا سب سے بڑا انعام عوام کی خون پسینے کی کمائی تھی۔ ہاں، وہی عوام جو اپنا سب کچھ لٹا کر خاموش رہ گئی، کیونکہ چور اور محافظ ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔
سی سی ڈی کا اچانک ظہور اورگیلی لکڑی کا دور
محکمہ پولیس کے نئے شعبہ سی سی ڈی کے قیام نے محکمہ کو بظاہر چار چاند لگا دیے، لیکن دراصل ان چاندنی میں ماضی کی تاریکیاں نمایاں ہو گئیں۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سہیل ظفر چٹھہ نے آتے ہی حکم دے دیا: "کوئی افسر ریکوری نہیں کرے گایہ اعلان سنتے ہی ڈاکوؤں سے قریبی مراسم رکھنے والے افسران کے چہروں پر وہی تاثر تھا جو شادی کے کھانے پر پلیٹ خالی ملنے پر آتا ہے۔ انہیں پتہ چل گیا کہ اب پہلے والی بہاریں نہیں رہیں، اب گیلی لکڑی پر ہی کھانا پکانا پڑے گا۔
سی آئی اے کا سنہری فارمولالین دین کے معاملات میں: 60/40 حصہ
ماضی میں سی آئی اے کا کاروبار اتنا نفع بخش تھا کہ تعیناتی کے لیے افسران سفارشوں اور قیمتی تحائف کے ساتھ افسران کے گھروں کی ڈیوڑھی چمکاتے۔ اصول سادہ تھا — ڈاکو پکڑو، 60 فیصد افسر رکھے گا، 40 فیصد مدعی کو دے گا۔ اس منصفانہ تقسیم (!) نے کئی افسران کو شاہانہ زندگی گزارنے کا موقع دیا۔
سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کا آڈٹ اور پریشر کا کھیل
جب سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے ریکوریوں کے آڈٹ کا حکم دیا تو وردی پوش کاروباری طبقے میں کھلبلی مچ گئی۔ تحقیقات نے کرپشن کے شواہد نکالنے شروع کیے تو پریشر بڑھا، اور چونکہ اس گندے کھیل میں بڑے بڑے پی ایس پی افسران کے ہاتھ بھی رنگے تھے، تحقیقات خاموشی سے دفن کر دی گئیں۔
اثاثوں کی کہانی محلات، پلاٹس اوراہم جیولرز
سی آئی اے اور آرگنائز کرائم یونٹ کے افسران کی جائیدادیں دیکھیں تو لگتا ہے جیسے وہ تیل کے کنویں کے مالک ہوں۔ اینٹی کرپشن اگر ماضی اور حال کے اثاثوں کی پڑتال کر لے تو کئی ارب روپے کے راز سامنے آ سکتے ہیں۔طریقہ واردات نہایت پروفیشنل تھا بڑے گینگز پکڑے جاتے، مقدمات میں برآمدگی دکھائی جاتی، اصل مال افسران کے پاس رہتا، اور زیورات ایک مخصوص جیولرز کے پاس پہنچ جاتے، جہاں سے برادرانِ ورد ی بھی مستفید ہوتے۔
جب ڈاکو کی بیوی وردی والے کی دلہن بنی
ایک کیس میں ایک افسر نے تو اخلاقیات کی آخری قلع بندی بھی مسمار کر دی۔ گرفتار ڈاکو کا مال ہڑپ کرنے کے بعد اس کی جوان سال بیوی کو طلاق دلا کر خود شادی کر لی۔ اس پر اگر کسی نے سوال کیا تو جواب ملا ہم تو عوام کی خدمت کر رہے ہیں
جرائم کی جڑ کہاں تھی؟
سی سی ڈی کے قیام کے بعد جیسے ہی ریکوری کا سلسلہ بند ہوا، جرائم کی شرح حیران کن حد تک کم ہو گئی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ماضی میں جرائم کا سب سے بڑا فنانسر اور سہولت کار وہی لوگ تھے جنہیں ہم محا فظ سمجھتے تھے۔ یہ کہانی سن کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب محض ماضی کی بات ہے یا ابھی بھی وہی کھیل جاری ہے، بس کھلاڑی بدل گئے ہیں؟ عوام کو شاید کبھی پتہ نہ چل سکے، کیونکہ جب چور اور محافظ ایک ہی وردی پہنے ہوں تو انصاف کی تلاش خود ایک جرم بن جاتی ہے۔


