
ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب پنجاب کے مختلف اضلاع کے اچانک دورے کریں گی، اور جن افسران کی کارکردگی ناقص ثابت ہوئی ہے، ان کے خلاف نہ صرف تبادلے کیے جائیں گے بلکہ باقاعدہ تحقیقات بھی ہوں گی۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو "چائے پانی” کا زمانہ شاید ختم ہونے کو ہے، اور اب صرف "انکوائری فائل” باقی رہ جائے گی۔
عوامی تاثر یہی ہے کہ بیوروکریسی کو صرف ایئرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر بریفنگ لینے کی عادت ہو چکی ہے۔ سیلابی صورتحال کی پیشگی اطلاعات موجود تھیں لیکن مجال ہے کہ کسی ضلع میں معقول حفاظتی اقدامات نظر آئے ہوں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف سڑکیں ٹوٹ گئیں بلکہ پل ایسے بہہ گئے جیسے کسی بچے کے بنائے گئے ریت کے کھلونے ہوں۔
لاہور سمیت قصور، ننکانہ صاحب، سرگودھا، فیصل آباد، راولپنڈی، چکوال اور دیگر اضلاع میں سڑکوں پر گہرے گڑھے، پلوں کا گرنا اور ہزاروں ایکڑ پر فصلوں کی تباہی ایک مشترکہ کہانی بن چکی ہے۔ عوام کے لیے "ریلیف” کا مطلب صرف ایک پریس کانفرنس اور کچھ سوشل میڈیا تصویریں رہ گئی ہیں، جبکہ حقیقی ریلیف کہیں نظر نہیں آتا۔
وزیر اعلیٰ نے خاص طور پر ان اضلاع کے افسران کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے جن کو اربوں روپے کے فنڈز دیے گئے مگر بدلے میں ناقص میٹریل سے بنی ایسی سڑکیں اور پل بنے جو پہلی بارش میں ہی اپنا اصل چہرہ دکھا گئے۔ شاید اس مرتبہ ان چہروں کو بے نقاب بھی کیا جائے گا۔
اب کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا رہی ہیں، اور تحقیقات کا عمل "مثالی کارروائی” تک لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ویسے تو پاکستان میں "مثالی” لفظ خود ایک طنز بن چکا ہے، کیونکہ اکثر اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا، یا اگر کچھ ہوگا بھی تو چند دن کی معطلی، پھر تبادلہ، اور کچھ عرصے بعد وہی افسر دوبارہ کسی دوسرے ضلع میں "ریلیف” دینے کے لیے تعینات ہو جائے گا۔ تاہم اگر مریم نواز واقعی سنجیدہ ہیں، اور ان کے طوفانی دورے کسی میڈیا شو سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، تو یہ بیوروکریسی کے لیے ایک سخت پیغام ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر، یہ سب بھی "فائلوں” میں لپٹا ہوا ایک اور طوفان ہوگا، جو بیان بازی کی بارش میں ہی بہہ جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز کا طوفانی موڈ بیوروکریسی میں واقعی زلزلہ لاتا ہے یا صرف عوامی دباؤ سے نمٹنے کا ایک اور موسمی اعلان ثابت ہوتا ہے۔ بیوروکریسی نے اگر اب بھی ہوش نہ سنبھالا تو اگلی بار شاید انہیں سرپرائز وزٹ نہیں، سرپرائز برطرفی کا سامنا کرنا پڑے۔

