واشنگٹن :امریکا نے پاکستان سمیت 30 ممالک کو کو جدید ترین میزائل فراہم کرنے کے کے عالمی منصوبے میں شامل کر لیا ہے۔
امریکی محکمہ برائے جنگ نے 6 اکتوبر کو پاکستان کا نام ان 30ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جو ریتھیون (Raytheon) کمپنی کے جدید ”اے آئی ایم-120سی8/ڈی3“ میزائل خرید رہے ہیں۔
یادرہے جینز ڈیفنس میگزین کے مطابق امریکی محکمہ جنگ نے AIM-120 ایڈوانسڈ میڈیم رینج ایئر ٹو ایئر میزائل (AMRAAM) کی تیاری کے لیے Raytheon کو USD3.5 بلین کا کنٹریکٹ دیا ہے یہ پینٹا گون کی تاریخ کاسب سے بڑا ٹھیکا ہے۔
اگرچہ سرکاری ذرائع نے میزائل کی رینج کے متعلق کچھ واضح نہیں کیا لیکن جینز ویپنز: ایئر لانچڈ کے مطابق، AIM-120D-3 اور C-8 ورژن ممکنہ طور پر 160 کلومیٹر کے فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ AMRAM کی رہنمائی ایک فعال راڈار کرتا ہے، جسے درمیانی کورس کی GPS رہنمائی اور دو طرفہ ڈیٹا لنک سے گائیڈ کیا جاتا ہے ۔
یہ فیصلہ ایک معاہدے میں 41.68 ملین ڈالر کی توسیع کے تحت کیا گیا ہے، جو پہلے سے موجود 2.51 ارب ڈالر کے معاہدے کا حصہ ہے۔ ان ممالک میں جاپان، جرمنی، برطانیہ، اسرائیل، ترکیہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر اور پاکستان شامل ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ پاکستان کو کتنے نئے میزائل فراہم کیے جائیں گے، تاہم اس سے یہ ثابت ہوچکا ہےکہ پاکستان اپنے ایف-16 طیاروں کو جدید بنانے کے عمل کا آغاز کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ ی دفتر خارجہ، پاک فضائیہ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی باضابطہ تردیدی یا تصدیقی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ وہی ایف-16 طیارے ہیں جو پاکستان نے 7-2006 میں ”پیس ڈرائیو“ پروگرام کے تحت امریکا سے حاصل کیے تھے۔ اس وقت پاکستان کو 500 ”اے آئی ایم-120سی5“ میزائل بھی فراہم کیے گئے تھے۔
نیا اے آئی ایم-120سی8 میزائل، اے آئی ایم-120ڈی کا برآمدی ورژن ہے، جو فی الحال امریکی فضائیہ کا سب سے جدید ”ایئر ٹو ایئر“ (فضا سے فضا میں مار کرنے والا) میزائل ہے۔ ریتھیون کمپنی نے اس ماڈل کی جانچ 2023 میں شروع کی تھی اور اب تک یہ امریکا کے متعدد اتحادی ممالک کے لیے آرڈر کیا جا چکا ہے۔
امریکی محکمہ جنگ کے مطابق، یہ منظوری دراصل 41.6 ارب ڈالر کے ایک عالمی منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت 30 سے زائد اتحادی ممالک کو یہ جدید میزائل فراہم کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کا مقصد مغربی ممالک کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو ایک مشترکہ معیار پر لانا ہے تاکہ نیٹو اور انڈو پیسیفک ممالک کے درمیان فضائی تعاون مضبوط ہو۔
یہ معاہدہ 2030 تک مکمل کیا جائے گا اور اس دوران ان میزائلوں کی پیداوار اور ترسیل جاری رہے گی۔
امریکی دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام عالمی سطح پر بدلتی ہوئی کشیدگیوں، خاص طور پر روس، چین، اور مشرقی یورپ کے حالات کے تناظر میں کیا گیا ہے تاکہ امریکا اور اس کے اتحادی تکنیکی برتری برقرار رکھ سکیں۔


