تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان ڈوبا ہوا ہے، سیلاب میں بھی اور بے حسی میں بھی۔ ایک طرف کچے مکانوں کی دیواریں بہہ گئیں، ماؤں کی گودیں اور بستیاں اجڑ گئیں، بچوں کی کتابیں پانی میں ڈوب گئیں… اور دوسری طرف ہمارے نو دولتیے ہال کے جھاڑ فانوس کے نیچے، اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں "چیری آن ٹاپ” کھاتے ہوئے فرما رہے ہیں: “جی، حکومت کو چاہیے کہ متاثرین کی مدد کرے۔”
مدد؟ جی بالکل! لیکن اپنی جیب سے ایک روپے کی نہیں۔ ہاں، لیکن ہنی ٹریپ ہونے کے لئے ہم ہر دم تیار ہیں اگر کسی خاتون نے مسکرا کر میسج بھیج دیا تو باچھیں کھلا کر لاکھوں کی ٹرانزیکشن ایک لمحے میں۔ سیلاب زدہ بچہ دو وقت کی روٹی کو ترسے، اس پر تو جواب ہے: “یہ حکومت کا کام ہے”۔ مگر کسی ماڈل یا پرکشش حسینہ کی طرف سے جھوٹی محبت کا وعدہ آجائے تو بٹوہ کھلنے کے ساتھ ساتھ دماغ کے دروازے بھی بند۔
حمیرا اصغر کیس، جب ماں نے بھوکے بچوں سمیت دریا میں گود کر جان دیدی۔۔غربت بے روزگاری اور ٹریفک چالان سے تنگ شخص نے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی۔۔ ان خبروں نے اب اثر کھو دیا ہے یاہ ہم من حیث القوم بے حسی کے اعلی ترین درجے پر فائز ہوچکے ہیں ۔
یہ قوم عجب ہے۔ ہمسایہ بھوک سے مر جائے تو لاش اٹھنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ "ہائے! یہ تو بہت شریف آدمی تھا۔” لیکن کسی شوبز کی حسینہ کے انسٹاگرام لائیو پر لائکس بھیجنے کے لیے نیٹ پیک وقت پر ریچارج۔
یہ بے حسی کوئی فلسفہ نہیں، زندہ حقیقت ہے۔ حالیہ واقعہ دیکھ لیں: بہاولپور کی لوہار والی گلی میں دو بزرگ بہنیں کئی دن سے بھوکی پیاسی پڑی تھیں۔ ہفتے کے روز محلے داروں کو خبر ملی تو ریسکیو پہنچا۔ ایک بہن بھوک پیاس سے دم توڑ چکی تھی، دوسری کو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ زندہ بچ جانے والی نے خود اعتراف کیا کہ کئی دن سے کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا۔ محلے داروں کے مطابق دونوں غیر شادی شدہ اور بالکل اکیلی رہتی تھیں، ایک بھائی برسوں سے لاپتا ہے۔ لاش دفن ہو گئی اور اس کے ساتھ انسانیت بھی، مگر سوال یہ ہے کہ ان کی زندگی بچانے والا کوئی کیوں نہ ملا؟
اٹلی کی گلوکارہ جولیا مارکین کی مثال آج بھی ہمارے منہ پر طمانچہ ہے۔ 1955 میں اس نے چوراہے پر کھڑے ہو کر اپنی برا نکالی اور کہا: "کتنے دو گے؟” بولی 90 ہزار ڈالر تک پہنچی۔ وہ ہنس کر بولی: "تم لوگ ہوس پر لاکھوں لٹانے کو تیار ہو لیکن ایک بھوکے کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ تمہاری انسانیت مردہ ہے۔” صد افسوس، آج 2025 کا پاکستان بھی اسی تصویر کا جدید ایڈیشن ہے۔
نو دولتئے جب کسی شاپنگ مال سے مہنگا پرس یا گھڑی خریدتے ہیں تو قیمت بتا بتا کر فخر کرتے ہیں، لیکن اگر کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھیں تو دس فوٹو شوٹ کرواتے ہیں۔ امداد اب نیکی نہیں رہی، اشتہار بن گئی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سیلاب زدہ انسان آپ کے "ہنی ٹریپ” نہیں ہیں کہ لاکھوں لٹا کر بھی آپ کو تالیاں ملیں۔ یہ لوگ آپ کے پڑوسی ہیں، آپ کے اپنے ہیں۔ ان کی بددعائیں اگر لگ گئیں تو وہی اصلی ٹریپ ہوگا، جس سے کوئی بھی امیری یا طاقت نہیں چھڑا سکے گی۔
یاد رکھیں! ہنی ٹریپ کی لڑکیاں صرف جیب خالی کرتی ہیں، لیکن بھوکے ہمسائے کی بددعا نسلیں خالی کر دیتی ہے۔


