تحریر: سہیل احمد رانا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
عصرِ حاضر میں جہاں ہر ایپ، ہر ویب سائٹ اور ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی پہلی ترجیح آپ کا ذاتی ڈیٹا ہوتا ہے، وہاں پرانے زمانے کے "ڈاکیہ کبوتر” ایک بار پھر سرفہرست سکیورٹی ماہرین کے ہیرو بن کر ابھرے ہیں۔
دیکھ لیجیے! وٹس ایپ نے کہا "اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن” ہے، لیکن اینڈ سے پہلے ہی پیغام اسٹیٹس میں، اسٹیکر کے پیچھے یا سرور کے بیک اپ میں جھانکتا ہے۔ ٹیلیگرام والے کہہ بیٹھے: "سیکرٹ چیٹ ہے بھائی!”، لیکن سیکرٹ بس اتنا کہ دو چار دن بعد سکینڈل بن کر میڈیا پر چل جائے۔
اور جب پاکستان کے وفاقی وزرا سے لے کر اہم حکام اور عام شہریوں کا ڈیٹا صرف 500 روپے سکہ رائج الوقت کے حساب سے ڈارک ویب پر دستیاب ہو توکسی رازداری اور کہاں کی راز داری جب ایمنسٹی انٹرنیشنل ببانگ دہل اپنی رپورٹ جاری کرے کہ پاکستانیوں کا اب فائر وال اور فون ٹیپنگ کے ذریعے کوئی راز راز نہیں اورتو سمجھ لیجئے کہ وطن عزیز میں پرائیویسی کس چڑیا کا نام ہے ۔جانے تو جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
ای میل تو خیر پہلے ہی دفتر کے کلرکوں کے پاس سے ہوتی ہوئی ایف بی آر تک پہنچ جاتی ہے۔ اب ذرا مقابلہ کیجیے کبوتر سے، جو اپنی چونچ میں خط دبائے سیدھا محبوب کے صحن میں اترتا ہے۔ نہ ہیکر کو موقع، نہ ایجنسی کو شبہ، نہ ہی کسی "ڈیلیٹ فار ایوری ون” کا جھنجھٹ۔ پیغام اگر جلانا ہو تو آگ دکھا دیں، ورنہ کبوتر کو دانہ ڈالیں اور راز ہمیشہ کے لیے محفوظ۔۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کبوتروں کی سروس نہ ڈاؤن ہوتی ہے نہ "نو سگنل” کا پیغام دیتی ہے۔ البتہ بارش میں پر بھیگ جائیں تو ڈلیوری کچھ دیر سے ضرور پہنچتی ہے۔ وہ بھی آج کل کے کوریئر سے زیادہ تیز۔ ہمارے ایک دوست نے مذاق میں کہا، بھائی، کبوتر کی واحد کمزوری یہ ہے کہ اگر پڑوسی نے اچار رکھے ہوں تو وہ پہلے وہاں جا کے بیٹھتا ہے، لیکن ماننا پڑے گا، یہ کمزوری سرورز سے پھر بھی کم خطرناک ہے، کیونکہ سرور تو ڈیٹا بیچ کر پراپرٹی بنا لیتے ہیں، کبوتر زیادہ سے زیادہ ایک دانہ کھا کر اڑ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا کی دوڑ دھوپ اور لیکس کے طوفان میں، سچ میں محفوظ ترین میسجنگ ایپ کا نام ہے: “چٹھی میرے ڈھول نوں پچاویں وے کبوترا“

