تحریر:اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان میں غریب ہونا ہمیشہ سے ایک جرم رہا ہے، مگر اب سیلاب زدہ ہونا بھی تعزیراتِ پاکستان میں شامل ہو گیا ہے۔ بھوک یہاں جرمِ عظیم ہے اور کھانا بانٹنا ریاست کے نزدیک ایک سنگین بغاوت۔
وزیرِ ہاؤسنگ پنجاب بلال یاسین جب سیلاب زدہ علاقوں کے ’’معائنے‘‘ پر گئے تو وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔ فوٹو سیشن، بریانی کی دیگیں اور کیمروں کے سامنے وہ تاریخی سوال: “بوٹی ملی؟ کھانا کھایا؟ ہاتھ کھڑا کرو!” گویا متاثرین کی بھوک بھی سرکاری تقریب کا حصہ تھی، جیسے لقمہ نہیں، ووٹ مانگا جا رہا ہو۔
ادھر مسلم لیگ ن کی معزز ایم پی اے بی بی وڈیری، اپنی شاندار گاڑیوں کے قافلے سمیت تشریف لائیں۔ ساتھ میں میڈیا کوریج اور ’’ریلیف‘‘ کا سامان۔ مگر تقسیم کے وقت دریاؤں کی سیلابی روانی رک گئی اور متاثرین کے حصے میں صرف ایک کپ چائے اور ایک رس آیا۔ کیا منظر ہوگا جب سینکڑوں بھوکے چہرے ایک ایک رس پر جھپٹ پڑے، اور پھر شرمندہ ہو کر وہ رس تھام لیا کہ کہیں یہ موقع بھی ضائع نہ ہو جائے۔ کیونکہ اب بھوک بھی سرکاری اجازت کے بغیر نہیں مٹ سکتی۔
ضلعی انتظامیہ نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے: کوئی کھانے کی چیز، پانی، دودھ، حتیٰ کہ روٹی کا ٹکڑا بھی تقسیم کرنے سے پہلے پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کی تحریری اجازت ضروری ہے۔ یوں بھوک کو بھی اب بیوروکریسی کے کاغذوں میں پروٹوکول دیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ کس قدر ’’انسان دوست‘‘ ہے کہ جن کے گھر پانی بہا لے گیا، جن کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، وہ پہلے اجازت نامے کا انتظار کریں گے۔ فائل پر دستخط ہوں گے، مہر لگے گی، پھر جا کے شاید ایک نوالہ نصیب ہو۔ ورنہ ان کی بھوک غیر قانونی اور ان کا پیٹ ’’قانون شکن‘‘ تصور ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا حکمرانوں کی ضیافتیں بھی فوڈ لیبارٹری میں ٹیسٹ ہوتی ہیں؟ کیا عشائیوں کی پلیٹوں پر بھی پنجاب فوڈ اتھارٹی کی مہر ثبت کی جاتی ہے؟ یا یہ چیکنگ صرف اس غریب کی پلیٹ کے لیے ہے جو برسوں سے آدھی روٹی پر جیتا ہے؟
کاش ان حکمرانوں کو خبر ہوتی کہ جب ماں اپنے بھوکے بچے کو یہ کہہ کر بہلاتی ہے کہ: “بیٹا صبر کرو، کھانے پر ابھی مہر نہیں لگی” تو یہ فقرہ ریاست کی سب سے بڑی ناکامی کا اعتراف بن جاتا ہے۔
طنز کی انتہا یہ ہے کہ بھوک اور پیاس کا رشتہ اب پیٹ اور دل سے نہیں رہا، بلکہ سرکاری نوٹیفکیشن اور دفتری مہر سے جوڑ دیا گیا ہے۔ شاید آنے والے دنوں میں یہ بھی لازم ہو کہ متاثرین پہلے ’’آن لائن فارم‘‘ پر اپنی بھوک رجسٹر کروائیں، پھر ’’اہلیت‘‘ کے معیار پر پورا اترنے کے بعد ایک وقت کا کھانا حاصل کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ سیلاب نے گھروں کی دیواریں توڑی ہیں، مگر حکمرانوں کی انسانیت کو ہمیشہ کے لیے بہا دیا ہے۔ اب بھوک کا تعلق صرف بھوک سے نہیں رہا، بلکہ اجازت نامے سے ہے۔ اور یہی ہے اس ملک کے عوام کا اصل المیہ۔


