راولا کوٹ :(رپورٹ :ملک ظہیر) راولاکوٹ کی گلیوں میں آج ایک سوال گونج رہا ہے: کیا طلبہ کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنی آواز بلند کر بیٹھے؟ گرفتار طلبہ کی رہائی نہ ہونے پر عوامی ایکشن کمیٹی نے سٹی تھانہ کی طرف مارچ شروع کیا۔ مگر یہ کوئی ڈنڈوں، اینٹوں اور لاٹھیوں والا جلوس نہیں تھا۔
قیادت نے واضح اعلان کیا کہ کوئی ڈنڈا نہیں، کوئی نقصان دہ چیز ہاتھ میں نہیں ہو گی۔ جو پولیس یا عمارت کو نقصان پہنچائے گا وہ ہمارا نہیں ہوگا۔” یعنی احتجاج کرنے والے پہلے سے اعلان کر رہے ہیں کہ ہم پرامن ہیں، لیکن ریاست پھر بھی خوفزدہ ہے۔ کیوں؟ کیونکہ پرامن احتجاج، اگر سچ بول دے، تو بندوقوں سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔واضع رہے چند طلبہ کو گرفتار کیا گیا، مقدمات دائر ہوئے، اور پھر پورا شہر سوال کرنے لگا۔
طلبہ نے بھوک ہڑتال کی، عوامی ایکشن کمیٹی ان کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے جنکا مطالبہ ایک ہی: “ہمارے بچوں کو رہا کرو۔” لیکن حکمران طبقے کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔ عوام یہ کہہ رہے ہیں: اگر انصاف نہ ملا تو ہم خود قید ہونے کو تیار ہیں۔
ادھر یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ آزاد کشمیر میں انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔ گویا حکمرانوں کو لگا کہ اگر لوگوں کی آواز سنسر کر دی جائے تو احتجاج خود بخود مر جائے گا۔شاید انہیں یاد نہیں کہ 2024 میں بھی یہی ہتھکنڈہ آزمایا گیا تھا اور نتیجہ کیا نکلا؟ سڑکوں پر مزید ہجوم، مزید نعرے، مزید غصہ۔ یہ معاملہ اب چند گرفتار طلبہ کی رہائی تک محدود نہیں رہا۔ یہ اس ریاست کا چہرہ بے نقاب کر رہا ہے جہاں طالب علم کو احتجاج کی سزا قید خانہ ہے، اور عوام کو سوال کرنے کی سزا انٹرنیٹ کی بندش۔
راولاکوٹ کی یہ تحریک ہمیں یہ سبق دے رہی ہے کہ ظلم چاہے کتنا ہی خاموش کر دینے والا کیوں نہ ہو، عوام کی آواز کسی نہ کسی صورت اپنا راستہ بنا ہی لیتی ہے۔

