تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بے نقاب ہوں، وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
دنیا بھر میں ترقی کے لیے اسکول، اسپتال، صنعتیں اور روزگار پیدا کیے جاتے ہیں۔ مگر ہمارا ملک اپنی مثال آپ ہے، جہاں ترقی کا مطلب ہے "سب کچھ ختم کر دینا” اور پھر اس پر جشن منانا۔
سرکاری اسکول ختم کر دیے گئے۔ کہا گیا کہ یہ بوجھ تھے۔ اب بچے سیدھا موبائل کے "ریلز” سے تعلیم حاصل کریں گے۔ امتحان بھی ختم، استاد بھی ختم، بس ڈیٹا پیکج باقی۔ قوم کے معمار اب کتابوں سے نہیں بلکہ "ٹی وی ڈراموں” اور "یوٹیوب ٹیوٹوریلز” سے تیار ہوں گے۔ صحت – دعا پر مبنی ہے
ہسپتال بند، صحت کارڈ منسوخ۔ حکمت یہ ہے کہ جب علاج کی سہولت ہی نہ ہو تو عوام بیمار کیوں ہوں گے؟ اب قوم دم درود، نیم حکیموں اور تعویذ گنڈوں کے رحم و کرم پر ہے۔ مریض اسپتال کے بجائے دعا خانوں کا رخ کریں گے۔ صحت کے شعبے پر بوجھ ختم، بجٹ بچ گیا، کامیابی مکمل!
صنعتیں – بوجھ سے نجات
سٹیل مل؟ ختم!
پی آئی اے؟ ختم!
ریلوے؟ ختم!
ٹیکسٹائل؟ ختم!
بوجھ اتر گیا، قوم آزاد ہو گئی۔ اب جہاز نہیں تو تاخیر نہیں، ٹرین نہیں تو حادثہ نہیں۔ صنعتوں کے بغیر ہی ترقی کی نئی معیشت تشکیل دی جا رہی ہے، جہاں سب کچھ باہر سے درآمد ہوگا۔ خوش آمدید "امپورٹ انڈسٹری
زراعت اور روزگار – نیا فارمولا زراعت ختم تاکہ کسان کھیتوں میں پسینے سے تر نہ ہوں۔ کھانے پینے کی اشیاء باہر سے آئیں گی اور ہم غیر ملکی ذائقوں سے لطف اندوز ہوں گے۔
نوکریاں بھی ختم کر دی گئیں تاکہ "بے روزگاری” جیسا لفظ ہی لغت سے خارج ہو جائے۔ جب نوکریاں ہی نہیں تو بے روزگار کہاں سے آئیں گے ۔یوں ایک ایک ادارہ اور سہولت ختم ہوتی گئی اور حکمرانوں نے سینہ تان کر کہا کہ ہم تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
اس ملک کو بجلی 25000 میگا واٹ کی ضرورت تھی۔
ہم نے 41000 کے کارخانے لگا لیے۔سولہ ہزار فالتو بجلی کے اربوں روپے بجلی گھروں کے مالکان کو آج بھی بغیر بجلی خریدے/ استمعال کئے دے رہے ہیں۔
سچ ہی تو ہے۔ جب پیچھے کچھ بچا ہی نہ ہو تو آگے بڑھنے کے علاوہ راستہ ہی کیا رہ جاتا ہے؟
یہ ملک اب ریاست کم اور طنز کا شہکار زیادہ بن چکا ہے۔ عوام کے پاس تعلیم نہیں، علاج نہیں، روزگار نہیں، مگر دعوے ہیں کہ "ہم کامیاب ہو گئے”۔ شاید یہ ترقی نہیں بلکہ تاریخ کا سب سے کامیاب جادو ہے، جس میں سب کچھ غائب ہو گیا اور باقی صرف نعرے رہ گئے۔


