تحریر :اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پنجاب پولیس کا ذکر آتے ہی اکثر ذہن میں کرپشن کی کہانیاں، اختیارات کے بے جا استعمال اور سیاسی دباؤ کے سامنے جھکنے کے واقعات ابھر آتے ہیں۔ مگر اسی دھندلے منظرنامے میں کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو اس تاثر کو نہ صرف توڑتے ہیں بلکہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر نیت صاف ہو تو وردی کا وقار آسمان کو چھو سکتا ہے۔
یہ داستان ایک ایسے گمنام ہیرو کی ہے، جو نہ کسی بلند رینک کے پی ایس پی افسر ہیں، نہ دولت کے انبار رکھتے ہیں۔ نہ انہوں نے دوہری شہریت لی، نہ بیرونِ ملک کوئی جزیرہ خریدا، نہ محل نما بنگلوں میں بسیرا کیا۔ ان کا سب سے بڑا اثاثہ ان کا بے داغ ضمیر ہے، اور یہی دولت انہیں باقی سب سے منفرد بناتی ہے۔
قصور میں تعیناتی کے دوران یہ افسر ایک کڑے امتحان سے گزرے۔ چند بااثر سیاسی عناصر نے مخالفین کو کچلنے کے لیے اپنے ہی ملازمین پر وحشیانہ تشدد کا ڈرامہ رچایا۔ زخمیوں کی تصاویر اور فرضی بیانات کے ذریعے پولیس پر دباؤ ڈالا گیا کہ مخالفین کو فوراً گرفتار کیا جائے۔ اوپر سے حکم آیا، اعلیٰ افسران کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، مگر یہ شخص سچائی کے مورچے سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹا۔
اس نے سب سے پہلے ان نام نہادزخمیوںکو عزت و احترام کے ساتھ دفتر بلایا۔ جب پٹیاں کھلیں تو حقیقت کی ساری گندگی باہر آگئی—نہ کوئی زخم، نہ تشدد کا کوئی نشان، بس سیاسی انتقام کا ایک بھیانک کھیل۔ افسران بار بار گرفتاری کا مطالبہ کرتے رہے، تو اس نے پُراعتماد لہجے میں کہا کہ ملزمان گرفتار ہو گئے ہیں۔پھر کمرۂ دفتر میں وہ لمحہ آیا جب چاروں جھوٹے زخمی خود افسران کے سامنے پیش کیے گئے اور ڈرامے کا پردہ پھٹ گیا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں تھا، بلکہ اس پورے نظام کے لیے ایک واضح پیغام—کہ پولیس کی اصل طاقت سچائی، ایمانداری اور انصاف میں ہے، نہ کہ جھوٹے مقدمات اور سیاسی خوشامد میں۔اسی سوچ کے تحت اس افسر نے ایک انقلابی قدم اٹھایا—ہر ڈویژن میں الگ پی ایس او اور مکمل اسٹاف کے ساتھ ایک مؤثر نظام متعارف کرایا۔ اس نظام نے انصاف کے دروازے پر موجود تمام رکاوٹیں توڑ ڈالیں۔ جیسے ہی کوئی حکم جاری ہوتا، برق رفتاری سے ماتحت افسران تک پہنچتا، اور مقررہ وقت پر اس کا جواب بھی آ جاتا۔ اس نے مظلوم کے لیے انصاف کو دنوں اور ہفتوں نہیں، بلکہ گھنٹوں کی مسافت پر کر دیا۔ کرپشن کی جڑیں کاٹنے کے لیے یہ ایک کاری وار تھا۔ آج جب ہر طرف بداعتمادی اور مایوسی کا اندھیرا ہے، تو یہ گمنام ہیرو اس سچائی کی علامت ہیں کہ امید ابھی زندہ ہے۔ یہ وہ چراغ ہیں جو طوفان میں بھی اپنی روشنی کم نہیں کرتے۔ تاریخ گواہ ہے—عہدے اور اختیارات وقت کے ساتھ مٹ جاتے ہیں، مگر کردار اور دیانت داری ہمیشہ امر رہتی ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے ۔یہ دنیا میں رہتے ہیں، مگر دنیا ان کے اندر نہیں رہتی۔


