تحریر اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار سی سی ڈی نے وہ کارنامہ دکھایا جس کا عوام برسوں سے انتظار کر رہے تھے۔ محلے کے راجے، گلی کے ٹپہ خور اور روزمرہ کے غنڈے سب جال میں آ گئے۔ اڈے ٹوٹے، خوف کی فضاء چھٹی اور شہریوں نے برسوں بعد سکون کا سانس لیا۔ عوام خوش تھی اور سی سی ڈی کو فاتح قرار دیا گیا۔ لیکن اب ایک سوال گلی کوچوں سے عدالتوں تک گردش کر رہا ہے: اصل کھلاڑی کہاں ہیں؟ وہ بڑے چہرے جو ان نرسریوں کے اصل مالی تھے، وہ آج بھی ٹھاٹ سے گھوم رہے ہیں۔چھوٹوں پر تو سی سی ڈی شیر نکلی، لیکن بڑوں پر آتے ہی بلی کیوں بن گئی؟ کیا یہ بڑے لوگ واقعی اتنے مقدس ہیں کہ قانون کی دسترس وہاں جا کر رک جاتی ہے؟ یا پھر یہ آپریشن صرف دکھاوے کا تھا؟ عوام طنز کرتی ہے کہ شاید بڑے بدمعاش کسیVIP لسٹ میں شامل ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا منع ہے۔سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے دور میں پنجاب بھر کے ہر ضلع کے ٹاپ ٹین بدمعاشوں کی فہرستیں بنیں۔ اسی طرح کرپٹ افسران، منشیات فروشوں، گیسٹ ہاؤسز اور مساج سنٹرز کی تفصیلات بھی اکٹھی کی گئیں۔ لاہور میں کرپٹ پولیس افسران کی فہرست بے نقاب ہوئی جس میں ڈی ایس پیز، انسپکٹرز اور سب انسپکٹرز شامل تھے۔ لیکن پھر دلچسپ موڑ آیا: ایک اعلی افسر کے بھانجے کا نام لسٹ میں آ گیا اور وہی لسٹ لیک کروا دی گئی تاکہ دباؤ بڑھے اور آپریشن رک جائے۔ ہوا بھی یہی، تحقیقات شروع ہوئیں اور پھر فائلوں میں دفن کر دی گئیں۔لاہور کے بڑے بدمعاش لسٹ میں شامل ضرور تھے لیکن ان کے خلاف کارروائی نہ ہو سکی۔ بلکہ ایک اور مزاحیہ واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک شخص جس کا نام لسٹ میں شامل نہیں تھا، وہ عدالت جا پہنچا اور رٹ دائر کر دی کہ جناب، میری علاقے میں بے عزتی ہوگئی لوگ مجھے بڑا بدمعاش سمجھتے تھے لیکن میرا نام لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟ پولیس نے عدالت کو جواب دیا کہ ایسی کوئی فہرست بنی ہی نہیں۔ گویا لسٹ موجود بھی تھی اور نہیں بھی۔یہ بڑے بدمعاش عام غنڈے نہیں، یہ انٹرنیشنل برانڈ ہیں۔ ہر شہر میں شاخ اور ہر ملک میں خریدار۔ کبھی منصوبہ بندی، کبھی سہولت کاروں کی آڑ اور کبھی خوف کی بندوق، یہ ہر مصیبت سے بال بال بچ نکلتے ہیں۔ ان کے سہولت کار صرف کرائے کے گن مین نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے دفاتر میں بیٹھے ہیں۔ وردی ہو یا سوٹ، یہ کالی بھیڑیں اصل ڈھال بنی ہوئی ہیں۔سی سی ڈی نے چھوٹوں کو پکڑ کر تالیاں بجوا لیں لیکن یہ تالیاں زیادہ دیر نہیں بجتیں۔ اصل امتحان تب ہوگا جب بڑے کھلاڑی بھی ہتھکڑی میں دکھائی دیں گے۔ ورنہ یہ آپریشن تاریخ کی ایک اورکامیاب ناکامی کہلائے گا۔ عوام اب طنز سے پوچھتے ہیں:چھوٹے پکڑے گئے، واہ، لیکن بڑے کہاں گئے؟کیا ان کے گھروں پر بھی کبھی چھاپہ پڑے گا یا وہ نو گو ایریا ہیں؟بڑے کھلاڑیوں پر بھی کبھی ایف آئی آر درج ہوگی یا وہ صرف تقریروں میں مجرم ہیں؟اور سب سے اہم، سی سی ڈی کی آنکھوں پر پٹی واقعی انصاف کی ہے یا کسی اور نے باندھی ہے؟سی سی ڈی کے پاس آج سنہری موقع ہے۔ یا تو بڑے بدمعاشوں کا خاتمہ کر کے تاریخ میں نام امر کرے اور عوامی ہیرو بنے، یا پھر طنز کا نشانہ بن جائے اور لوگ برسوں یہی کہتے رہیں۔چھوٹوں پر شیر، بڑوں پر ڈھیر۔


