تحریر اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان میں انصاف لینا ایسے ہی ہے جیسے لنک روڈ پر ٹریفک سگنل کا سبز ہونا، ہر کوئی دعا کرتا ہے مگر ہوتا کب ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن شمالی لاہور میں ایک افسر صاحب ہیں جن کے پاس انصاف کا شاید ریموٹ کنٹرول ہے۔ بٹن دبایا اور مقدمہ حاضر، بٹن دبایا اور گرفتاری مکمل۔ گویا جیسے نیٹ فلیکس پر ڈرامہ دیکھ رہے ہوں، کہانی بس ان کے ہاتھ میںمحترمہ نادیہ نے کہا کہ ان کے سابق شوہر فخر نے ان کے زیورات بیچ ڈالے۔ ایس ایچ او نے قانون کی کتاب کھول کر انکار کیا، لیکن سرکل افسر کے پاس شاید قانون کی اپنی ایپ ا نسٹال ہے۔ انہوں نے حکم دیا، ساتھ 406 کی دفعہ لگا دی اور مقدمہ رجسٹرڈ کروا دیا۔ واہ بھئی واہ، جس ملک میں لوگ سالوں سے تاریخیں بھگت رہے ہیں وہاں ایک خاتون کی عرضی پر سیکنڈوں میں انصاف فراہم۔اب ذرا تصور کریں کہ اگر اس افسر کے پراضافی ڈیٹا پیکج ہوتا تو وہ شاید 804 بھی لگا دیتے، اور پھر فخر صاحب کی رہائی کا خواب صرف خواب ہی رہتا۔کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ نادیہ صاحبہ کا پتہ کینٹ کا نکلا لیکن وقوعہ شمالی لاہور میںتخلیق کر لیا گیا۔ گویا انصاف کا نظام بھی اب گوگل میپ پر نہیں چلتا، بلکہ افسر کے موڈ پر چلتا ہے۔ آج دل چاہا تو وقوعہ لاہور میں، کل کو بہاولپور میں، اور پرسوں شاید مری میں۔جب بڑے افسران نے فریقین کو بلا کر بات سنی تو پتہ چلا کہ یہ مقدمہ تو بہاولپور کا بنتا بھی تو نہیں بنتا۔ اور اصل حقیقت یہ کہ میاں بیوی کے درمیان مالی جھگڑوں پر 406 لگتی ہی نہیں۔ نتیجہ؟ مقدمہ خارج۔ لیکن مقدمہ درج کرنے والے افسر کی "مہربانی” ریکارڈ میں ضرور محفظ ہو گئی۔شہری کہتے ہیں کہ اگر انصاف اسی رفتار سے ملنے لگا تو پھر عدالتوں کو تالے لگنے چاہئیں۔ ایک افسر، ایک قلم اور ایک دستخط، اور انصاف کے سارے دروازے کھلے۔ چاہے حقیقت ہو یا نہ ہو، مقدمہ ہو یا ڈرامہ، افسر کے پاس بٹن ہے، وہ دبائے گا اور انصاف پلے ہو جائے گا۔طنز اپنی جگہ، لیکن یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کہ کیا ایسے افسر کے خلاف کوئی کارروائی ہو گی؟ یا پھر یہ بھی فائلوں کے ڈھیر میں دب جائے گا؟ کیا ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران صاحب اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ مستقبل میں کسی کے ساتھ ایسا کھیل نہ کھیلا جا سکے؟ہمارے ہاں انصاف اب عدالت میں نہیں ملتا، بلکہ ایسے افسروں کےریموٹ کنٹرول پر چلتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ریموٹ میں بیٹری کبھی کبھی ختم ہو جاتی ہے، لیکن ان افسروں کی خود ساختہ طاقت کبھی ختم نہیں ہوتی۔

