تحریر اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
لاہور کی گلیوں میں ایک تماشہ لگا۔ تماشا یہ کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے اپنی طاقت کے نشے میں انسپکٹر سونیا ناہید اور سب انسپکٹر احمد مجتبی کو ایسے دبوچ لیا جیسے کسی دہشت گرد کو پکڑ رہے ہوں۔ نہ نوٹس، نہ انکوائری، نہ صفائی کا موقع، بس ہتھکڑی اور حوالات۔لیکن پولیس کے اندر طاقت کے یہ کھیل ہمیشہ سیدھی لکیر پر نہیں چلتے۔ آئی جی پنجاب اور لاہور پولیس کی قیادت نے پلٹ کر وار کیا۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن ذیشان رضا نے نہ صرف سونیا ناہید کو بحال کیا بلکہ انہیں دوبارہ انچارج یکی گیٹ بنا دیا۔ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب پولیس کے اپنے ہی افسران دو دھڑوں میں بٹ چکے تھے، ایک طرف محکمانہ غیرت، دوسری طرف ذاتی پسند اور چہیتے۔اصل کہانی کہیں زیادہ گندی ہے۔ الزام ہے کہ سی سی ڈی نے یکی گیٹ پولیس کی حراست سے شانی بٹ کو اٹھایا اور بعد میں مقابلے میں مار ڈالا۔ لواحقین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو شک کی انگلی سیدھی سونیا ناہید پر اٹھی، کیوں کہ انہوں نے ورثا کو اصل حقیقت بتا دی۔ ا س جرمِ بے جُرم کا انجام یہ نکلا کہ ایک چہیتے افسر نے حق کو دبا کر جھوٹ کو بلند کیا اور خاتون انسپکٹر سمیت ساتھی سب انسپکٹر پر جھوٹا مقدمہ داغ دیا۔یہ صرف دو افسران کی کہانی نہیں، یہ اس ادارے کا چہرہ ہے جس پر ہم بھروسہ کرتے ہیں۔ جب وردی میں چھپی طاقت انصاف کو روندنے لگے، جب محکمے اپنے ہی اصولوں کو پیروں تلے کچل دیں، جب ذاتی انتقام قانون پر حاوی ہو جائے تو یہ صرف ایک کیس نہیں رہتا، یہ پورے نظام کا جنازہ ہوتا ہے۔سوال یہ نہیں کہ سونیا ناہید بے قصور تھیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ادارہ اپنی حدود توڑ کر دوسرے کی عزت خاک میں ملا سکتا ہے؟ کیا یہ رویہ کل کو کسی اور کی وردی نہ اتار دے گا؟ اور سب سے بڑھ کر، جب انصاف کے رکھوالے خود طاقت کے غلام بن جائیں تو عوام اپنا مقدمہ کہاں لے کر جائیں۔سی سی ڈی اینٹی کرپشن کی ملازم ہے جو اینٹی کرپشن کے ملزم پکڑنے کے لئے انکے ساتھ جاتی ہے اسکا مقصد پولیس یا دیگر محکموںکو خوف کے سائے میںرکھنا ہے جیسا کہ انسپکٹر سونیا ناہید کی گرفتاری پر ایس ایچ او نواںکوٹ سی سی ڈی کو دیکھ کر خاموش ہوگیا یا ڈر گیا ؟

