تحریر :اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے”
لاہور، ایک شہر جو اپنے حسن، محبت اور تہذیب کے لیے پہچانا جاتا ہے، آج ایک ایسے انکشاف سے لرز اٹھا ہے جو ہمارے اعتماد، نظام اور انصاف پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ یہ کہانی کسی فلم یا ناول کی نہیں، بلکہ ہمارے بیچ، ہمارے محافظوں میں سے ایک کی ہے۔ وہ شخص جو قانون کا رکھوالا بن کر بیٹھا تھا، خود قانون توڑنے والوں کا سردار نکلا۔چوہنگ پولیس اسٹیشن اور سی سی ڈی چوہنگ کی دیواروں کے بیچ یہ گندا کھیل جاری رہا۔ باہر درختوں پر پرندے چہچہا رہے تھے، اندر انصاف کے متلاشی شہری دھکے کھا رہے تھے، اور وہی شخص جسے ان کا سہارا بننا تھا، ان کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہا تھا۔ متاثرین اپنی چوری شدہ موٹر سائیکل کا مقدمہ درج کراتے، مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ جس کے سامنے وہ فریاد کر رہے ہیں، وہی ان کے خواب اور سکون کا چور ہے۔اے ایس آئی غلام مصطفی، جو انوسٹی گیشن چوہنگ میں تعینات تھا، اپنی وردی کے پیچھے ایک بھیانک کاروبار چھپا بیٹھا تھا۔ شادی ہال میں جیب تراشی کرنے والے ملزم سہیل کو گرفتار کیا، مگر انصاف دینے کے بجائے اس سے ڈیل کر کے اسے بزنس پارٹنر بنا لیا۔ سہیل اور اس کے ساتھی نہ صرف جیب تراشی کرتے بلکہ موٹر سائیکلیں چوری کر کے تھانے لے آتے، جہاں یہ سب قانونی کارروائی کے لبادے میں سستے داموں فروخت ہو جاتیں۔کھیل یہیں ختم نہیں ہوتا تھا۔ غلام مصطفی خریدار کو پکڑ کر اس سے بھی پیسے بٹورتا اور اپنے اوپر والے افسران کو خوش رکھتا۔ مہینوں تک یہ کھیل جاری رہا، عوام کے اعتماد کے گلے پر چھری چلتی رہی، اور قانون کا مذاق بنتا رہا۔ مگر تقدیر نے بھی ایک دن فیصلہ سنایا۔ سی سی ڈی کی ٹیم کو خبر ملی، غلام مصطفی گرفتار ہوا، اور تفتیش میں اس نے سب اگل دیا۔یہ انکشاف نہ صرف ایک شخص کی کرپشن کا ہے، بلکہ اس نظام کی کمزوری کا بھی ہے جہاں محافظ اور مجرم کے بیچ کی لکیر دھندلا جاتی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم صرف ایک مجرم کو جیل نہ بھیجیں بلکہ اس سوچ، اس نیٹ ورک اور اس نظام کا بھی خاتمہ کریں جو انصاف کو بازار کی جنس بنا دیتا ہے۔یہ لمحہ ہمارے لیے ایک آئینہ ہے۔ سوال یہ نہیں کہ غلام مصطفی کون تھا، سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اپنے محافظوں کو چور بنتا دیکھتے رہیں گے؟


